١ لان الاذان للاعلام وقبل الوقت تجہیل٢ وقال ابویوسف وہو قول الشافعی یجوز للفجرفی النصف الاخیر من اللیل لتوارث اہل الحرمین ٣ والحجة علی الکل قولہ علیہ السلام لبلال لاتؤذن حتی یستبین لک الفجر ہکذا ومدیدیہ عرضًا،
فامرہ النبی ۖ ان ینادی ان العبد قد نام ۔(ترمذی شریف ، باب ماجاء فی الاذان باللیل ص ٥٠ نمبر ٢٠٣ ابو داؤد شریف ، باب فی الاذان قبل دخول الوقت ص ٨٦ نمبر ٥٣٢) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وقت سے پہلے حضرت بلال نے اذان دی تو حضورۖ نے ان کو لوگوںکے سامنے معذرت کرنے کے لئے کہا کہ 'ان العبد قد نام' کہو(٥) ان رسول اللہ ۖ قال لہ لا تؤذن حتی یستبین لک الفجرھکذاومد یدیہ عرضا۔ (ابو داؤد شریف، باب فی الاذان قبل دخول الوقت ص ٨٦ نمبر ٥٣٤) اس حدیث میں ہے کہ جب تک فجر پھیل کر ظاہر نہ ہو جائے اذان نہ دے ، اس سے معلوم ہوا کہ فجر میں بھی وقت سے پہلے اذان نہ دے ۔
ترجمہ: ١ اسلئے کہ اذان اطلاع دینے کے لئے ہے اور وقت سے پہلے اذان دینے سے لوگوں کو جہالت میں ڈالنا ہے ۔
تشریح : وقت سے پہلے اذان نہ دینے کی یہ دلیل عقلی ہے ۔ کہ اذان اسلئے ہے کہ لوگوں کو اطلاع ہو جائے کہ اب نماز کا وقت ہو گیا ہے ۔ اور وقت سے پہلے اذان دینے سے لوگ شبہ میں پڑ جائیں گے اور جہالت ہو گی ، اسلئے وقت سے پہلے اذان دینا اچھا نہیں ہے ۔
ترجمہ: ٢ اور امام ابو یوسف اور امام شافعی نے فر مایا کہ فجر کے لئے رات کے نصف آخیر میں اذان دینا جائز ہے ، اھل حرمین کے توارث کی وجہ سے حضور ۖ کے زمانے سے آج تک اھل حرمین صبح صادق سے پہلے اذان دیتے ہیں ، اس توارث کی وجہ سے امام ابو یوسف اور امام شافعی کی رائے ہے کہ رات کے دوسرے حصے میں فجر کی اذان دے سکتا ہے ۔ (٢) حدیث میں بھی ہے کہ حضرت بلال صبح صادق سے پہلے اذان دیتے تھے ، حدیث یہ گزر گئی ۔ عن عائشة عن النبی ۖ أنہ قال : ان بلالا یوء ذن بلیل فکلوا و اشربوا حتی یوء ذ ن ابن أم مکتوم ۔ (بخاری شریف ،باب الاذان قبل الفجر ، ص ٨٢ ، نمبر ٦٢٣) اس حدیث میں ہے کہ فجر سے پہلے اذان دینا جائز ہے ۔
ترجمہ :٣ اور کل پر حجت حضرت بلال کو حضور علیہ السلام کا قول ہے کہ اذان نہ دو یہاں تک کہ فجر اس طرح واضح ہو جائے ، اور حضور ۖ نے اپنے ہاتھ کو چوڑائی میں پھیلایا ۔
تشریح: اوپر حدیث گزر گئی ہے کہ جب تک صبح صادق خوب واضح نہ ہو جائے فجر کی اذان نہ دے ۔ حدیث یہ ہے ۔ ان رسول اللہ ۖ قال لہ لا تؤذن حتی یستبین لک الفجرھکذاومد یدیہ عرضا۔ (ابو داؤد شریف، باب فی