٥ والی النصف الاخیر مکروہ لما فیہ تقلیل الجماعة وقد انقطع السمر قبلہ (١٩٧)ویستحب فی الوترلمن یألف صلوٰة اللیل اٰخراللیل فان لم یَثق بالانتباہ اوترقبل النوم ) ١ لقولہ علیہ السلاممن خاف ان لایقوم اٰخر اللیل فلیوتراولہ ومن طمع ان یقوم اٰخر اللیل فلیوتر اٰخر اللیل
انکم فی صلوة ما انتظر تموھا ۔ ( بخاری شریف ، باب وقت العشاء الی نصف اللیل ، ص٨١ ، نمبر ٥٧٢ مسلم شریف ، باب وقت العشاء و تأخیرھا ، ص ٢٢٨ ،نمبر ٦٤٠ ١٤٤٩) اس حدیث میں ہے کہ آپ ۖ نے آدھی رات تک عشاء موء خر کی ، پھر آپ ۖ نے نماز کے بعد جو معذرت پیش کی کہ لوگ سو گئے اور تم لوگ ابھی نماز میں ہو، اس سے معلوم ہو تا ہے کہ آدھی رات تک موء خر کر نا صرف مباح ہے مستحب نہیں ہے ، پھر اس کو مستحب قرار دیں تو بارہ بجے تک کون جگے گا !
ترجمہ: ٥ اور نصف آخیر تک موء خر کر نا مکروہ ہے اسلئے کہ اس میں جماعت کا کم ہو نا ہے ، اور گپ شپ کر نا تو اس سے بہت پہلے ختم ہو چکا ہے ۔
تشریح : نصف آخیر رات کے بارہ بجے کے بعد سے شروع ہو گا ، اس وقت نماز عشاء پڑھے گا تو بہت کم لوگ شریک ہو سکیں گے جو مکرہ ہے ، اور گپ شپ کر نا تو بہت پہلے ختم ہو چکا ہے ، اسلئے بارہ بجے کے بعد نمازعشاء پڑھنا مکروہ ہے ، البتہ چونکہ وقت باقی ہے اسلئے نماز ادا ہی ہو گی
لغت : ثلث اللیل : تہائی رات ، پوری رات کو بارہ گھنٹہ مانیں تو تہائی رات مغرب کے بعد چار گھنٹہ ہو گا ، اور تقریبا دس بجے رات ہو گی ۔السمر: رات میں گپ شپ لگانا ۔ ندب : مستحب ، افضل ۔ مباح: جائز تو ہو لیکن افضل نہیں۔
ترجمہ:(١٩٧) وتر میں مستحب اس شخص کے لئے جس کو تہجد پڑھنے کا شوق ہو یہ ہے کہ مؤخر کرے رات کے اخیر حصہ تک ،اور اگر اعتماد نہ ہو جاگنے پر تو وتر پڑھے سونے سے پہلے۔
ترجمہ: ١ حضور علیہ السلام کے قول کی وجہ سے کہ جسکو خوف ہو کہ آخیررات میں نہ اٹھ سکے تو وہ شروع رات میں وتر پڑھ لے ، اور جسکو امید ہو کہ آخیر رات میں اٹھ جائے گا تو آخیر رات میں وتر پڑھے ۔
تشریح : جس کو تہجد پڑھنے کا شوق اور عادت ہو وہ وتر رات کے اخیر حصہ میں پڑھے۔اور جسکو جاگنے پر اعتماد نہ ہو تو اس کو سونے سے پہلے وتر پڑھ لینا چاہئے۔
وجہ: اوپر کی حدیث یہ ہے ۔ عن جابر قال قال رسول اللہ ۖ من خاف ان لا یقوم من آخر اللیل فلیوتر اولہ ومن طمع ان یقوم آخرہ فلیوتر آخر اللیل فان صلوة آخر اللیل مشہودة و ذلک افضل۔ (مسلم شریف ، بابمن خاف ان لا یقوم من آخر اللیل فلیوتر اولہ، ص ٢٥٨ ،نمبر ٧٥٥ ١٧٦٦ ابن ماجہ ، باب ما جاء فی الوتر آخر اللیل ، ص ١٦٦ ، نمبر