٢ والمعتبرتغیرالقُرص وہوان یصیر بحال لاتحارفیہ الاعیُن ہو الصحیح والتاخیر الیہ مکروہ
(١٩٥) ویستحب تعجیل المغرب)
ترجمہ :٢ اور اعتبار ٹکیے کا بدلنا ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ اس حال میں ہو کہ آنکھیں اس پر نہ چوندھیاویں ، یہی صحیح ہے ، اور وہاں تک تاخیر مکروہ ہے ۔
تشریح : عصر کو موء خر کر نا افضل تو ہے لیکن اتنی تاخیر افضل ہے کہ سورج کے ٹکیہ پر زردی نہ آجائے وہاں تک موء خر کر نا افضل ہے لیکن اگر سورج کے ٹکیے پر زردی آگئی ، اور اس پر نظر جمائیں تو اب آنکھیں نہ چوندھیائیں تو یہاں تک موء خر کر نا مکروہ ہے صحیح یہی ہے اسکے لئے حدیث یہ ہے ۔
وجہ: (١) سمعت ابا مسعود الانصاری یقول ... ورأیتہ یصلی العصر والشمس مرتفعة بیضاء قبل ان تدخلھا الصفرة ۔ (دار قطنی ، باب ذکر بیان المواقیت و اختلاف الروایات فی ذلک ج اول ص ٢٥٩ نمبر ٩٧٥)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آفتاب زرد ہونے سے پہلے تک عصر کی نماز مؤخر کرنا مستحب ہے۔(٢) قال : دخلنا علی انس بن مالک بعد الظھر فقام یصلی العصر ....تلک صلوة المنافقین ، یجلس أحدھم حتی اذا اصفرت الشمس ، فکانت بین قرنی شیطان أو علی قرنی الشیطان ، قام فنقر أربعا لا یذکر اللہ عز وجل فیھا الا قلیلا ً۔ ( ابو داود شریف ، باب وقت العصر ، ص ٦٤، نمبر ٤١٣) اس حدیث میں ہے کہ سورج زرد ہو جائے تو اس وقت منافق کی نماز ہو تی ہے اسلئے سورج زرد ہو تے وقت نماز مکروہ ہے ۔ البتہ نماز ہو جائے گی ۔ اسلئے کہ ابھی وقت ہے ۔ (٣) دوسری حدیث بھی ہے عن عبد اللہ بن عمران النبی ۖ قال اذا صلیتم الفجر ... فاذا صلیتم العصر فانہ وقت الی أن تصفر الشمس (مسلم شریف، باب اوقات الصلوات الخمس ص ٢٢٢ نمبر ٦١٢ ترمذی شریف،باب ماجاء فی مواقیت الصلواة ص ٤٠ نمبر ١٥١) اس حدیث میں سورج زرد ہو نے تک مستحب وقت بتایا ہے ۔
ترجمہ: (١٩٥) مغرب کو جلدی پڑھنا (مستحب ہے) ۔
وجہ: (١) اوپر کی حدیث میں دیکھا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے دونوں دن ایک ہی وقت میں مغرب کی نماز پڑھائی اس کا مطلب یہ ہے کہ اول وقت میں مغرب کی نماز پڑھنا مستحب ہے اخبرنی ابن عباس ان النبی ۖ قال امنی جبرئیل عند البیت مرتین .... ثم صلی المغرب حین وجبت الشمس وافطر الصائم .... ثم صلی المغرب لوقتہ الاول ثم صلی العشاء الآخرة حین ذھب ثلث اللیل ثم صلی الصبح حین اسفرت الارض ثم التفت الی جبرئیل فقال یا محمد ھذا وقت الانبیاء من قبلک والوقت فیما بین ھذین الوقتین۔(ترمذی شریف،باب ماجاء