(١٩٤)وتاخیرالعصر مالم تتغیر الشمس فی الصیف والشتاء ) ١ لما فیہ من تکثیر النوافل لکراہتہا بعدہ
(٢) حضرت انس کی روایت یہ ہے ۔ سمعت انس بن مالک یقول کان النبی ۖ اذا اشتد البرد بکر بالصلوة واذا اشتد الحر ابرد بالصلوة یعنی الجمعة ۔ (بخاری شریف ، باب اذا اشتد الحر یوم الجمعة ص ١٢٤ کتاب الجمعة نمبر ٩٠٦) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سردی میں ظہر کی نماز جلدی پڑھے اور گرمی میں دیر کر کے پڑھے۔
(٣)سردی میں ظہر کی نماز جلدی پڑھے اسکے لئے ایک روایت یہ بھی ہے۔ عن انس بن مالک ان رسول اللہ ۖ خرج حین زاغت الشمس فصلی الظھر۔ (بخاری شریف ،باب وقت الظہر عند الزوال ص ٧٧ نمبر ٥٤٠) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سردی ہو تو نماز جلدی پڑھی جائے۔
ترجمہ: (١٩٤) عصر مؤخر کرے جب تک سورج میں زردی نہ آجائے۔ چاہے گرمی میں ہو چاہے سردی میں ۔
وجہ: (١)حدیث میں ہے علی بن شیبان قال قدمنا علی رسول اللہ ۖ الی المدینة فکان یؤخر العصر مادامت الشمس بیضاء نقیة ( ابو داؤد شریف، باب فی وقت صلوة العصر ص ٦٥ نمبر ٤٠٨)(٢) دوسری حدیث میں ہے سمعت ابا مسعود الانصاری یقول ... ورأیتہ یصلی العصر والشمس مرتفعة بیضاء قبل ان تدخلھا الصفرة ۔ (دار قطنی ، باب ذکر بیان المواقیت و اختلاف الروایات فی ذلک ج اول ص ٢٥٩ نمبر ٩٧٥) ان دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ آفتاب زرد ہونے سے پہلے تک عصرکی نماز مؤخر کرنا مستحب ہے۔
ترجمہ: ١ اسلئے کہ اس صورت میں نوافل کی کثرت ہے ، اسلئے کہ نوافل اسکے بعد مکروہ ہے ۔
تشریح: عصر کو موء خر کر کے پڑھنے کی وجہ بتا رہے ہیں کہ عصر کے بعد نوافل پڑھنا مکروہ ہے ، اسلئے عصر کو موء خر کر کے پڑھے تاکہ اس سے پہلے زیادہ سے زیادہ نوافل پڑھ سکے ۔عصر کے بعد نوافل مکروہ ہے اسکی دلیل یہ حدیث ہے ۔عن ابی ھریرة قال : نھی رسول اللہ ۖ عن صلاتین : بعد الفجر حتی تطلع الشمس ، و بعد العصر حتی تغرب ۔ ( بخاری شریف ، باب لا تتحری الصلاة قبل غروب الشمس ، ص ٨٢ ، نمبر ٥٨٨ مسلم شریف ، باب الاوقات التی نھی عن الصلوة فیھا ، ص ٣٣٣ نمبر ٨٢٥ ١٩٢٠) اس حدیث میں ہے کہ عصر کے بعد نوافل مکروہ ہے ۔ اسلئے عصر تاخیر سے پڑھے تاکہ اس سے پہلے زیادہ سے زیادہ نوافل پڑھ سکے ۔تاکہ عصر سے پہلے سنن اور نوافل پڑھ سکے۔ کیونکہ عصر کی نماز کے بعد نوافل نہیں پڑھ سکیںگے۔