(١٩٣) والابرادبالظہرفی الصیف وتقدیمہ فی الشتاء ) ١ لما رویناولروایة انس قال کان رسول اللّٰہ ۖ اذا کان فی الشتاء بکَّر بالظہر و اذا کان فی الصیف ابردبہا
(بخاری شریف، باب وقت الفجر ص ٨٢ نمبر ٥٧٨ مسلم شریف ، باب استحباب التبکیر بالصبح ص ٢٣٠ نمبر ١٤٥٨٦٤٥) اس حدیث میں دیکھئے غلس اور اندھیرے میں نماز پڑھی گئی ۔(٢) اور ہر نماز کو اول وقت میںپڑھنے کی دلیل یہ حدیث ہے ۔ عن ام فروة قالت : سئل رسول اللہ ۖ ای الاعمال أفضل ؟ قال : الصلوة فی اول وقتھا ۔ ( ابو داود شریف ، باب المحافظة علی الصلوات ، ص ٦٧ ، نمبر ٤٢٦ ترمذی شریف ، باب ما جاء فی الوقت الاول من الفضل ، ص ٤٢ نمبر ١٧٠ ) اس حدیث میں ہے کہ تمام نمازیں اول وقت میں پڑھنا افضل ہے۔
ہمارا جواب یہ ہے کہ اوپر حدیث میں ہے کہ فجر کی نماز اسفار کر کے پڑھو ، (٢) اور آگے دوسری حدیث آرہی ہے کہ ٹھنڈی میں نماز جلدی پڑھتے اور گرمی میں نماز ٹھنڈا کر کے پڑھتے ۔ سمعت انس بن مالک یقول کان النبی ۖ اذا اشتد البرد بکر بالصلوة واذا اشتد الحر ابرد بالصلوة یعنی الجمعة ۔ (بخاری شریف ، باب اذا اشتد الحر یوم الجمعة ص ١٢٤ کتاب الجمعة نمبر ٩٠٦) اس سے معلوم ہوا کہ تمام نماز یں بالکل اول وقت میں پڑھنا مستحب نہیں ہے بلکہ بعض نماز عذر کی وجہ سے تاخیر کر کے پڑھنا بھی افضل ہے ۔ وما نرویہ سے یہی حدیث مراد ہے ۔(٣) ہاں اگر مدینہ طیبہ کی طرح لوگ غلس میں مسجد میں آجاتے ہوں جیسے رمضان میں آجاتے ہیں تو غلس میںمستحب ہے اور اگر لوگ سوئے رہتے ہوں تو اسفار مستحب ہے۔
ترجمہ: (١٩٣) مستحب ہے گرمی میں ظہر کو ٹھنڈا کرکے پڑھنا اور سردی میں اس کو مقدم کرنا۔
ترجمہ : ١ اس حدیث کی بنا پر جو ہمنے پہلے روایت کی ۔ اور حضرت انس کی روایت کی بنا پر کہ رسول اللہ ۖ جب سردی ہو تی تو ظہر کو جلدی پڑھتے ، اور جب گرمی ہو تی ظہر کی نماز ٹھنڈا کر کے پڑھتے ۔
تشریح : گرمی میں ظہر کی نماز اس وقت پڑھے جب دھوپ کم ہو جائے اور تھوڑی ٹھنڈی ہو جائے کیونکہ آدمی کو گرمی میں پریشان کر نا اچھا نہیں ہے اور جب سردی کا موسم ہو تو جلدی پڑھ لے کیونکہ اس میں آدمی کو کوئی تکلیف نہیں ، اور تاخیر کرنے سے ممکن ہے کہ ظہر کا وقت نکل جائے ۔ ما قبل کی روایت اور حضرت انس کی روایت یہ ہیں ۔
وجہ: (١) ما قبل کی روایت یہ ہے ) عن عبد اللہ بن عمر حدثاہ عن رسول اللہ ۖ انہ قال اذا اشتد الحر فابردوا بالصلوہ فان شدة الحر من فیح جھنم (بخاری شریف،باب الابراد بالظھرفی شدة الحر ص ٧٦ نمبر ٥٣٣ترمذی شریف، باب ماجاء فی تاخیر الظہر فی شدة الحر ،ص٤٠، نمبر ١٥٧)حدیث سے معلوم ہوا کہ گرمی ہو تو ظہر کی نماز مؤخر کرکے پڑھنا مستحب ہے