مالک فی الموطأ ٤ وفیہ اختلاف الصحابة (١٩٠) واوّل وقت العشاء اذا غاب الشفق واٰخروقتہا مالم یطلع الفجر )
خرجت من وقت المغرب ۔ ( موطاء امام مالک ، باب جامع الوقوت ، ص ٨ ) موطاء میں حضرت ابن عمر کے بجائے خود حضرت امام مالک کا قول ہے ۔البتہ اس عبارت کے ساتھ اوپر حدیث بھی گزر گئی ۔
ترجمہ: ٤ شفق کے سلسلے میں صحابہ کرام کا بھی اختلاف ہے ۔
ترجمہ: (١٩٠) عشا کا اول وقت جب شفق غائب ہو جائے اور اس کا آخر وقت جب تک کہ فجر نہ طلوع ہو جائے۔
تشریح : امام ابو حنیفہ کے نزدیک شفق ابیض غائب ہو نے کے بعد اور صاحبین کے نزدیک شفق احمر غائب ہو نے کے بعدعشاء کا وقت شروع ہو تا ہے ، اور اسکا آخری وقت صبح صادق طلوع ہو نے سے پہلے تک ہے ۔
وجہ: شفق کے غائب ہو نے کے بعد عشاء کا وقت شروع ہو تا ہے اسکی دلیل یہ ہے ۔ عن عباس ان النبی ۖ قال امنی جبرئیل عند البیت مرتین ....ثم صلی العشاء حین غاب الشفق .... ثم صلی العشاء الآخرة حین ذھب ثلث اللیل ثم صلی الصبح حین اسفرت الارض ثم التفت الی جبرئیل فقال یا محمد ھذا وقت الانبیاء من قبلک والوقت فیما بین ھذین الوقتین۔ (ترمذی شریف،باب ماجاء مواقیت الصلوة عن النبی ۖ ص ٣٨ ابواب الصلوة نمبر ١٤٩ ابوداؤد شریف، باب المواقیت،ص ٦٢، نمبر ٣٩٣) ا س حدیث میں ہے کہ عشاء کی نماز شفق غائب ہو نے کے بعد پڑھی (٢)عن ابی ھریرة قال : قال رسول اللہ ۖ ان للصلاة أولا و آخراً ....و ان أول وقت العشاء الآخرة حین یغیب الافق ، و ان آخر وقتھا حین ینتصف اللیل ۔ ( ترمذی شریف ، باب منہ ( یعنی ما جاء فی مواقیت الصلوة ) ص ٣٨ ، نمبر ١٥١ مسلم شریف ، باب اوقات الصلوة الخمس ، ص ٢٢١، نمبر٦١٤ ١٣٩٣) اس حدیث میں ہے کہ عشا ء کا وقت افق غائب ہو نے کے بعد شروع ہو تا ہے یعنی شفق غائب ہو نے کے بعد شروع ہو تا ہے ۔
اور آخر وقت صبح صادق سے پہلے تک ہے اسکی دلیل اس حدیث کا اشارہ ہے ۔ عن عائشة قالت اعتم النبی ۖ ذات لیلة حتی ذھب عامة اللیل وحتی نام اھل المسجد (مسلم شریف، باب وقت العشاء و تأخیرھا ص ٢٢٩ نمبر ١٤٤٥٦٣٨)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عامة اللیل رات کا ایک بڑا حصہ چلا گیا۔ دوسری حدیث میں ہے کہ آدھی رات چلی گئی تھی۔اس لئے آدھی رات تک نماز پڑھنے کا ثبوت صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ (٢) اور آخر رات تک عشا کے وقت ہونے کی دلیل صحابہ کا قول ہے ۔روینا عن ابن عباس انہ قال : وقت العشاء الی الفجر ۔ و عن عبد الرحمن بن عوف فی امرأة تطھر قبل طلوع الفجر صلت المغرب والعشاء ۔ قال لابی ھریرة ما افراط صلوة العشائ؟ قال طلوع الفجر ( السنن