(١٤٧) و دم الاستحاضة کالرعاف) ١ لا یمنع الصوم و لا الصلوة ولا الوطی٢ لقولہ علیہ السلام : توضأ ی و صلی و ان قطر الدم علی الحصیر٣ ولماعرف حکم الصلوة ثبت حکم الصوم والوطی بنتیجة الاجماع
(استحاضہ کا بیان )
ترجمہ: (١٤٧) اور استحاضہ کا خون نکسیر کے خون کی طرح ہے ۔
ترجمہ: ١ وہ نہیں روکتا ہے روزے کو نہ نماز کو اور نہ صحبت کو ۔
تشریح : جس طرح نکسیر کا خون مسلسل بہتا رہے تو اسکے باوجود نماز بھی پڑھے گی اور روزے بھی رکھے گی ، اور صحبت بھی کروائے گی اسی طرح استحاضہ کا خون مسلسل آتا ہو پھر بھی نماز ، روزہ کرے گی اور صحبت بھی کر وائیگی ۔
وجہ : حدیث میںاس کی دلیل موجود ہے (١) عن عائشة انھا قالت قالت فاطمة بنت ابی حبیش لرسول اللہ ۖ یا رسول اللہ انی لا اطھر؟ افادع الصلوة فقال رسول اللہ ۖ انما ذلک عرق ولیس بالحیضة فاذا اقبلت الحیضة فاترکی الصلوة فاذا ذھب قدرھا فاغسلی عنک الدم وصلی ۔(بخاری شریف، باب الاستحاضة ص ٤٤ نمبر ٣٠٦) مسلم شریف، باب المستحاضة و غسلھا وصلواتھا ص ١٥١ نمبر ٣٣٣) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مستحاضہ نماز پڑھے گی۔اور روزہ نماز کی طرح ہے اس لئے روزہ بھی رکھے گی (٢) شوہر وطی کرے اس کی دلیل یہ حدیث ہے عن عکرمة قال کانت ام حبیبة تستحاض فکان زوجھا یغشاھا (ابوداؤد، باب المستحاضة یغشاھا زوجھا ص ٤٩ نمبر ٣٠٩) (٣) مستحاضہ کا خون حدیث سے معلوم ہوا کہ نکسیر پھوٹنے کی طرح ہے ۔اور نکسیر پھوٹنے کی حالت میں نماز ، روزہ ، اور وطی جائز ہیں اس لئے استحاضہ کی حالت میں بھی یہ سب جائز ہونگے۔
ترجمہ: ٢ حضورۖ کے قول کی وجہ سے کہ وضو کرو اور نماز پڑھو اگر چہ خون چٹائی پر ٹپکتا رہے ۔ حدیث یہ ہے ۔ عن عائشة قالت جاء ت فاطمة بنت أبی حبیش الی رسول اللہ ۖ فقالت یا رسول اللہ ! انی امرأة أستحاض فلا اطھر أفادع الصلاة ؟ قال : لا انما ذالک عرق و لیس بالحیضة اجتنبی الصلاة أیام محیضک ثم اغتسلی و توضئی لکل صلاة و ان قطر الدم علی الحصیر ۔ ( ابن ماجة شریف ، باب ما جاء فی المستحاضة التی قد عدت أیام اقرا ئھا ، ص ٨٧ ، نمبر ٦٢١ نسائی شریف ، باب ذکر الاستحاضة و اقبال الدم و ادبارہ، ص ٤٧ ، نمبر ٣٥٠ دار قطنی ، کتا ب الحیض ، ج اول ، ص ٢١٩ ، نمبر ٨٠٨ )) (٣) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ استحاضہ کا خون نکسیر کی طرح ہے ۔
ترجمہ: ٣ اور جب نماز کا حکم پہچانا گیا تو روزے اور وطی کا حکم اجماع کے نتیجے سے ثابت ہو جائے گا ۔