١ لانہ ں فعل ذالک و امر علیا بہ ٢و لان الحرج فیہ فوق الحرج فی نزع الخف فکان اولی بشرع المسح ٣ و یکتفی بالمسح علی اکثرھا،ذکرہ الحسن ٤ ولا یتوقت لعدم التوقیف بالتوقیت
یعصر او یعصب شک موسی علی جرحہ خرقہ ثم یمسح علیھا و یغسل سائر جسدہ ۔(ابو داؤد شریف، باب فی المجدور یتیمم ص ٥٥ نمبر ٣٣٦) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زخم کے اوپر پٹی باندھ کر اس پر مسح کرے (٣)عن علی بن ابی طالب قال : انکسر ت احدی زندی فسألت النبی ۖ فأمرنی أن امسح علی الجبا ئر (ابن ماجہ شریف باب المسح علی الجبائر ،ص ٩٣،نمبر ٦٥٧ (دار قطنی ، باب جواز المسح علی الجبائر ،ص ٢٣٣ نمبر ٨٦٧ السنن للبیھقی، باب المسح علی العصائب والجبائر ج اول ،ص ٣٤٨، نمبر١٠٨٢) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کھپچی پر مسح کرنا جائز ہے۔
نوٹ: عموما زخم پر بغیر وضو کے ہی پٹی باندھتے تھے اس کے باوجود صحابہ اس پر مسح کرتے تھے۔ کیونکہ مجبوری ہے۔ اس لئے بغیر وضو کے بھی پٹی باندھی تو اس پر مسح کرنا جائز ہے۔
ترجمہ: ١ اسلئے کہ حضور ۖ نے یہ کیا ، اور حضرت علی کو اسکا حکم بھی دیا ہے ۔
یعنی حضور ۖ نے پٹی پر مسح فرمایا ۔حدیث یہ ہے عن ابن عمر : أن النبی ۖ کان یمسح علی الجبائر ۔ ( دار قطنی ، باب ما فی المسح علی الخفین من غیر توقیت ، ج اول ، ص٢١٢ ، نمبر ٧٧٤ ) اس حدیث میں ہے کہ حضور ۖ پٹی پر مسح فرمایا کر تے تھے ۔
، اور حضر ت علی کو پٹی پر مسح کر نے کا حکم دیا ، یہ حدیث ابن ماجہ ، نمبر ٦٥٧ کی اوپر گزر گئی ہے
ترجمہ: ٢ اور اسلئے بھی کہ اس میں جو حرج ہے وہ موزے کھولنے کے حرج سے زیادہ ہے اسلئے مسح کا مشروع ہو نا زیادہ بہتر ہے۔
تشریح : موزہ کھولنے میں حرج ہے اسلئے اس پر مسح کر نے کی اجازت دی ۔ تو پٹی کھولنے میں اس سے حرج اور تکلیف ہے اسلئے اس میں بدرجہ اولی مسح کر نے کی اجازت ہو نی چاہئے ۔یہ دلیل عقلی ہے۔
ترجمہ: ٣ اور اکتفاء کرے مسح کرنیکا اکثر زخم پر ۔ یعنی ۔جہاں تک پٹی باندھا ہے اس میں سے اکثر پر مسح کر لیا تو کافی ہو جائے گا ، پورے پر نہ بھی کرے تو کافی ہو جائے گا ۔ لیکن اگر آدھا ، یا آدھا سے کم کیا تو کافی نہیں ہے ۔ حضرت حسن نے یہی ذکر فرمایا ہے ۔کیونکہ تکلیف کی وجہ سے پورے پر مسح کر نا بعض مرتبہ مشکل ہو تا ہے ۔
ترجمہ: ٤ اور پٹی کا مسح وقت کے ساتھ خاص نہیں ہے کیونکہ حدیث میں وقت کی تعین نہیں ہے ۔
تشریح : موزے کے مسح میں وقت کی تعین ہے کہ ایک دن یا تین دن ہو لیکن پٹی کے مسح میں وقت متعین نہیں ہے جب تک زخم