٢ و قال مالک واجب لقولہ علیہ السلام: من اتی الجمعة فلیغتسل، ٣ ولنا قولہ ں: من توضأ یوم الجمعة فبھا ونعمت ومن اغتسل فھوافضل، وبھذا یحمل مارواہ علی الاستحباب، اوعلی النسخ ٤ ثم ھٰذا الغسل للصلوة عند ابی یوسف و ھو الصحیح لزیادة فضیلتھا علی الوقت و اختصاص الطھارة بھا، و فیہ خلاف الحسن
الجمعة،ص ١١٠ نمبر ٤٩٧ ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کے دن غسل مستحب ہے ۔اور جب جمعہ میں مستحب ہے تو عیدین وغیرہ میں بھی مستحب ہو گا ۔
ترجمہ: ٢ اور امام مالک نے فرمایا کہ غسل واجب ہے ۔حضور ۖ کے قول کی وجہ سے کہ جو جمعہ میں آئے اسکو غسل کرنا چاہئے ۔ حدیث یہ ہے عن عبد اللہ قال سمعت رسول اللہ ۖ یقول : اذا اراد احدکم أن یأتی الجمعة فلیغتسل ۔( مسلم شریف ،باب کتاب الجمعة ،ص ٢٧٩ نمبر ٨٤٤ ١٩٥١ ابوداود شریف ، باب فی الغسل للجمعة ،ص ٥٥ نمبر ٣٤٠ ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کے لئے غسل واجب ہے
ترجمہ: ٣ اور ہماری دلیل حضور علیہ السلام کا قول جس نے جمعہ کے دن وضو کی تو ٹھیک ہے اوربہترہے اور جس نے غسل کیا تو افضل ہے اور اس حدیث کی بناء پر اس حد جسکو دوسرے حضرات نے روایت کی اسکو استحباب پر محمول کیا جائے گا ،یا منسوخ ہونے پر ۔ابوداود کی یہ حدیث اوپر گزر گئی ۔ اور یہ بھی گزر گیا کہ اس حدیث کی بناء پر یہ کہا جائے گا کہ دوسرے حضرات نے وجوب کی جو حدیث پیش کی ہے اسکو استحباب پر محمول کیا جائے گا اور دونوں حدیثوں کے درمیان توافق پیدا کرنے لئے یہی کہا جائے گا کہ جمعہ کے دن غسل مستحب ہے ۔
یا یوں کہا جائے گا کہ شروع اسلام میںلوگ صفائی کا احتیاط نہیں کرتے تھے اسلئے غسل واجب تھا بعد میں منسوخ ہو کر مستحب رہ گیا ،یا سنت رہ گیا منسوخ ہونے کی دلیل یہ لمبی حدیث ہے یا ابن عباس !أ تری الغسل یوم الجمعة واجباً ؟ قال : لا ،ولکنہ اطھر و خیر لمن اغتسل .....قال ابن عباس : ثم جاء اللہ تعالی ذکرہ بالخیر و لبسوا غیر الصوف وکفوا العمل و وسع مسجدھم و ذھب بعض الذی کان یوذی بعضھم بعضا ً من العرق ،( ابوداود شریف ،باب الرخصة فی ترک الغسل یوم الجمعة ،ص ٥٧ نمبر ٣٥٣ ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پہلے غسل واجب تھا بعد میں منسوخ ہو کر مستحب ہو گیا ۔
ترجمہ: ٤ پھر یہ غسل امام ابویث کو یوسف کے نزدیک نماز کے لئے ہے اور صحیح یہی ہے کیونکہ نماز کی فضیلت وقت پر زیادہ ہے ،اور طھارت بھی نماز کے ساتھ خاص ہے اور اس میں حضرت حسن بن زیاد کا اختلاف ہے ۔
تشریح: امام ابو یوسف کے نزدیک غسل جمعہ کی نماز کے لئے ہے ۔انکی دلیل یہ حدیث ہے عن سالم عن ابیہ انہ سمع