Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 1

113 - 627
٢  و قال مالک واجب لقولہ علیہ السلام:  من اتی الجمعة فلیغتسل،   ٣  ولنا قولہ ں: من توضأ یوم الجمعة فبھا ونعمت ومن اغتسل فھوافضل، وبھذا یحمل مارواہ علی الاستحباب، اوعلی النسخ ٤  ثم ھٰذا الغسل للصلوة عند ابی یوسف  و ھو الصحیح لزیادة  فضیلتھا علی الوقت و اختصاص الطھارة بھا، و فیہ خلاف الحسن

الجمعة،ص ١١٠ نمبر ٤٩٧ ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کے دن غسل مستحب ہے ۔اور جب جمعہ میں مستحب ہے تو عیدین وغیرہ میں بھی مستحب ہو گا ۔
ترجمہ:  ٢  اور امام مالک  نے فرمایا کہ غسل واجب ہے ۔حضور ۖ کے قول کی وجہ سے کہ جو جمعہ میں آئے اسکو غسل کرنا چاہئے ۔ حدیث یہ ہے عن عبد اللہ قال سمعت رسول اللہ  ۖ یقول : اذا اراد احدکم أن یأتی الجمعة فلیغتسل ۔( مسلم شریف ،باب کتاب الجمعة ،ص ٢٧٩ نمبر ٨٤٤  ١٩٥١  ابوداود شریف ، باب فی الغسل للجمعة ،ص ٥٥ نمبر ٣٤٠ ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کے لئے غسل واجب ہے 
ترجمہ:  ٣  اور ہماری دلیل حضور علیہ السلام کا قول جس نے جمعہ کے دن وضو کی تو ٹھیک ہے اوربہترہے اور جس نے غسل کیا تو افضل ہے اور اس حدیث کی بناء پر اس حد جسکو دوسرے حضرات نے روایت کی اسکو استحباب پر محمول کیا جائے گا ،یا منسوخ ہونے پر ۔ابوداود کی یہ حدیث اوپر گزر گئی ۔ اور یہ بھی گزر گیا کہ اس حدیث کی بناء پر یہ کہا جائے گا کہ دوسرے حضرات نے وجوب کی جو حدیث پیش کی ہے اسکو استحباب پر محمول کیا جائے گا اور دونوں حدیثوں کے درمیان توافق پیدا کرنے لئے یہی کہا جائے گا کہ جمعہ کے دن غسل مستحب ہے ۔
یا یوں کہا جائے گا کہ شروع اسلام میںلوگ صفائی کا احتیاط نہیں کرتے تھے اسلئے غسل واجب تھا بعد میں منسوخ ہو کر مستحب رہ گیا ،یا سنت رہ گیا منسوخ ہونے کی دلیل یہ لمبی حدیث ہے یا ابن عباس !أ تری الغسل یوم الجمعة واجباً ؟ قال : لا ،ولکنہ اطھر و خیر لمن اغتسل .....قال ابن عباس : ثم جاء اللہ تعالی ذکرہ بالخیر و لبسوا غیر الصوف وکفوا العمل و وسع مسجدھم و ذھب بعض الذی کان یوذی بعضھم بعضا ً من العرق ،( ابوداود شریف ،باب الرخصة فی ترک الغسل یوم الجمعة ،ص ٥٧ نمبر ٣٥٣ ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پہلے غسل واجب تھا بعد میں منسوخ ہو کر مستحب ہو گیا ۔
ترجمہ:  ٤  پھر یہ غسل امام ابویث کو یوسف  کے نزدیک نماز کے لئے ہے اور صحیح یہی ہے کیونکہ نماز کی فضیلت وقت پر زیادہ ہے ،اور طھارت بھی نماز کے ساتھ خاص ہے اور اس میں حضرت حسن بن زیاد   کا اختلاف ہے ۔
تشریح:  امام ابو یوسف  کے نزدیک غسل جمعہ کی نماز کے لئے ہے ۔انکی دلیل یہ حدیث ہے عن سالم عن ابیہ انہ سمع 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 5 0
2 کتاب الطھارات 52 1
3 سنن الطھارة 62 2
4 مستحبات وضو کا بیان 71 3
5 نواقض وضو کا بیان 79 11
6 فصل فی الغسل 102 2
7 غسل کے فرائض کا بیان 102 6
8 غسل واجب ہونے کے اسباب 107 6
9 سنت غسل کا بیان 112 6
11 فصل فی نواقض الوضوئ 79 3
12 باب الماء الذی یجوز بہ الوضوء و ما لا یجوز بہ 117 2
13 پانی کے احکام 117 12
14 بڑے تالاب کا حساب ایک نظر میں 130 13
15 گول چیز ناپنے کافارمولہ 132 13
17 فصل فی البیر 155 12
18 کنویں کے مسائل 155 17
19 فصل فی الآسار 171 12
20 فصل جوٹھے اور اسکے علاوہ کے بارے میں 171 19
21 باب التیمم 193 2
23 باب المسح علی الخفین 227 2
24 باب الحیض و الاستحاضة 251 2
25 حیض کا بیان 251 24
26 فصل فی المستحاضة 270 24
27 فصل فی النفاس 276 24
28 نفاس کا بیان 276 27
29 باب الانجاس وتطھیرھا 283 2
30 نجاست ، اور اسکے پاک کرنے کا با ب 283 29
31 ہر ایک کے ناپاک ہو نے کی دلیل 297 29
33 درھم کی قسمیں تین ہیں 300 29
34 درھم کا حساب 300 29
36 فصل فی الاستنجاء 320 2
37 استنجاء کا بیان 320 36
38 کتاب الصلوة 329 1
39 باب المواقیت 329 38
40 فصل اوقات مستحب 342 39
41 فصل فی الاوقات التی تکرہ فیھا الصلوة 351 39
42 باب الاذان 362 38
43 باب شروط الصَّلٰوة التی تتقدمہا 385 38
44 باب صفة الصلوة 413 38
45 فصل فی القراء ة 496 44
46 باب الامامة 523 38
47 جماعت کا بیان 523 46
49 باب الحدث فی الصلوة 569 38
50 باب مایفسد الصلوٰة وما یکرہ فیہا 601 38
Flag Counter