ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2013 |
اكستان |
|
اِنتظام کیا جائے، دونوں وقت وسیع دَسترخوان بچھا کرے اَور مہاجرین و اَنصار جو اُن سے ملنے آتے ہیں وہ اُن کے ساتھ کھانے میں شریک ہوا کریں لیکن کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ حضرت فاروق رضی اللہ عنہ سے کچھ کہتا آخر سب کی رائے ہوئی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہنا چاہیے وہ اُن کے خسر ہیںاَور اُن سے کہہ سکتے ہیں چنانچہ سب لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے حضرت علی نے فرمایا میں ایسی بات اُن سے نہ کہوں گا، اُمہات المومنین سے کہلوانا چاہیے۔ اَحنف بن قیس کہتے ہیں کہ پھر وہ لوگ حضرت عائشہ اَور حضرت حفصہ کے پاس گئے دونوں ایک ہی جگہ مل گئیں، حضرت عائشہ نے فرمایا اچھا میں کہوں گی اَور حضرت حفصہ نے کہا کہ وہ مانیں گے نہیں مگر لوگوں کے اِصرار سے دونوںاُم المومنین تشریف لے گئیں اَور بڑی اچھی تمہید کے ساتھ حضرت فاروق سے اِس بارے میں گفتگو کی، آپ سن کر رونے لگے اَور رسولِ خدا ۖ کی تنگی ٔ معیشت کاذکر کرکے اِن دونوں کو بھی رُلایا اَور فرمایا سنو! میرے دو صاحب تھے میں نے اُن کو جس حال میں دیکھا ہے اگر میں اِس حالت کے خلاف اِختیار کروں تو پھر مجھ کو اُن کا ساتھ نصیب نہیں ہو سکتا۔ یہی حالت حضرت فاروق کی اَخیر وقت تک رہی ذرا تغیر نہیں ہونے پایا۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے ایک روزگوشت میں گھی ڈال کر پکایا،حضرت عمر نے نہیں کھایا اَور فرمایا گھی علیحدہ کھانے کی چیز ہے اَور گوشت علیحدہ، میں نے رسول اللہ ۖ کو دیکھا ہے کہ جب دو کھانے کی چیزیں آپ کے پاس جمع ہوجاتیں تو ایک چیز آپ ۖ خیرات کر دیتے تھے۔ تمام زمانۂ خلافت میں کبھی خیمہ آپ کے پاس نہیں رہا، سفر میں منزل پر پہنچ کر دھوپ یا بارش سے بچنے کے لیے کسی درخت پر چمڑا یا کپڑا آپ کے لیے تان دیا جاتا تھا۔ جب مالِ غنیمت کہیں سے آتا تو اَپنا حصہ بھی سب کے برابر رکھتے ۔ایک روز کا واقعہ ہے مالِ غنیمت میں چادریں آئیں اَور سب کو ایک ایک آپ نے تقسیم کردیں ، اِس کے بعد جمعہ کے دِن خطبہ پڑھنے کے لیے جو تشریف لے گئے تو اُن ہی چادروں میں سے ایک اَوڑھے ہوئے اَور ایک کی اِزار باندھے ہوئے تھے لوگوں کو معلوم ہو گیا تھا کہ آپ نکتہ چینی سے خوش ہوتے ہیں چنانچہ سلمان فارسی