ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2013 |
اكستان |
|
ایسا آدمی تمہیں ملے جس کے دِل میں یہ یقین ہو کہ لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ تو اُس کو جنت کی خوشخبری دے دو تو اَب یہ دِل تو نہیں ناپ سکتے ہیں کہ کس کے دِل میں ہے کس کے دِل میں نہیں ہے یہ تو صرف بیان کرسکتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے یوں فرمایا ہے کہ جس آدمی کے دِل میں لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا یقین ہو وہ جنَّتی ہے، یہی کہہ سکتے تھے ۔کہتے ہیں مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ مِلے پہلے سب سے تو اُنہوں نے کہا یہ کیا ہے تمہارے ہاتھ میں ؟ اِنہوں نے بتایا کہ یہ رسول اللہ ۖ کے نعلِ مبارک ہیں اَور مجھے رسول اللہ ۖ نے بھیجا ہے اَور یہ خوشخبری سنانے کے لیے بھیجا ہے کہ جس سے بھی میں ملوں اُس کو یہ بتا دُوں یعنی یہ حدیث سنا دُوں مَنْ یَّشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُسْتَیْقِنًا بِھَا قَلْبُہ بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن تو لیا اِس کے بعد اُنہیں خوش ہونا چاہیے تھا لیکن ایسی بات نہیں ہے بلکہ اُنہوں نے غور کیا اَور اُنہوں نے اِن کو دَھکا دیا اِن کے سینے پر ہاتھ رکھ کر دَھکیلا اَور یہ پیچھے گرگئے فَخَرَرْتُ لِاِسْتیِ اَور کہنے لگے کہ چلو وہیں چلو ،لوٹ کے چلو تو یہ لوٹ کے چلے آئے اَور کہتے ہیں میں خوب رویا رسول اللہ ۖ کے پاس جا کر اَور پیچھے پیچھے میرے یہ بھی آگئے۔ تورسول اللہ ۖ کے پاس پہلے میں پہنچا تھااَور رو رہا تھا تو پوچھا آپ نے کہ کیا بات ہوئی ہے ؟ تو وہ کہتے ہیں میں نے بتایا میں اِس طرح سے پیغام جناب کا لے جا رہا تھا عمر رضی اللہ عنہ مِلے اُنہیں میں نے یہ بات سنا ئی اُنہوں نے جناب مجھے اِس طرح سے دَھکا دیا سینے پر میرے ایسے دَھکیلا کہ میں سرین کے بل گرا اَور یہ کہا کہ چلو لوٹ جاؤ وہیں لوٹ چلو ، تو اِتنے میں وہ بھی آگئے پوچھا آپ نے اُن سے یَا عُمَرُ مَاحَمَلَکَ عَلٰی مَا فَعَلْتَ یہ تم نے کیا ہے اِس کی وجہ کیا ہوئی کس لیے ایسے کیا ؟ عدالتی اُصول : اِس حدیث میں ایک سبق یہ بھی ہے کہ جب تک دُوسرے کی بات نہ سن لے کوئی فیصلہ نہ کرے تو آقائے نامدار ۖ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا ۔کیونکہ ممکن ہے کہ کوئی اَور بات بھی ہوئی ہو قَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّیْ عرض کرنے لگے پورے آداب کے ساتھ بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّی