ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2013 |
اكستان |
|
قسط : ١٨ سیرت خُلفَا ئے راشد ین ( حضرت مولانا عبدالشکور صاحب فاروقی لکھنوئی ) اَمیر المؤمنین فاروقِ اَعظم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ زُہد اَور ترکِ دُنیا : زُہد اَور ترک ِدُنیا کی یہ حالت تھی کہ بیت المال سے اَپنا وظیفہ سب سے کم مقرر کیا جو آپ کی ضرورت کے لیے کسی طرح کافی نہ ہوتا تھا۔ کچھ تجارت کا سلسلہ بھی قائم تھا مگر خود اُس میں مشغول نہ ہوسکتے تھے لہٰذا اِس کی آمدنی بھی بہت کم رہ گئی تھی۔ بیت المال سے قرض لینے کی نوبت آجاتی تھی اَور یہ زیادہ مصارف مہمانوں کے سبب سے ہوتے تھے جو دَرحقیقت سرکاری مہمان ہوتے تھے مگر وہ اُن کے لیے بھی بیت المال سے نہیں لیتے تھے۔ فرمایا کہ بیت المال سے مجھے اِس قدر ملنا چاہیے جو میرے اَور میرے اہل و عیال کے کھانے کے متوسط دَرجہ میں کافی ہو یعنی روزانہ دو دِرہم نقد، سال میں دو جوڑے کپڑے (ایک گرمی کا اَورایک جاڑے کا) اَور سفرِ حج کے لیے سواری کا اِنتظام اَور بس چنانچہ یہی عمل دَرآمد آپ کا رہا۔(طبقات ج ٣) کھانے کا یہ حال تھا کہ اِس وقت کوئی اَدنیٰ شخص بھی اِس کھانے کو بہ رغبت نہ کھا سکتا تھا۔ حضرت موسٰی اَشعری فرماتے ہیں کہ تین روٹیاں آپ کے لیے آتی تھیں جن میں کبھی روغن زیتون لگا ہوتا تھا کبھی گھی کبھی خشک روٹیوں کے ساتھ دُودھ ہوتا تھا اَور کبھی سکھایا ہوا گوشت جو کوٹ کراُبال لیا جاتا تھا اَور کبھی تازہ گوشت بھی ہوتا تھا۔ اِزالةالخفاء میں روایت ہے کہ مہینے میں ایک مرتبہ تازہ گوشت اِستعمال فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ عراق سے کچھ مہمان آپ کے پاس آئے جس میں حضرت جریر بن عبداللہ بھی تھے اُن لوگوں سے آپ کا کھانا نہیں کھایا گیا۔