ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2013 |
اكستان |
|
میںفتنہ نہیں ہوتا کہ ساتھ رہ رہے ہیں آئے دن جھگڑے ہوتے ہیں بیوی نے ساس کی خدمت نہیں کی گھر کاکام نہیں کیا تو ظلم ہونے لگا اَورطلاق ہو گئی یہ فتنہ نہیں ہے ؟ اِس فتنہ کی فکر نہیں کہ پوری زندگی ہی برباد ہوجائے گی۔زیادہ تر لڑائیاں اِسی کا م کی وجہ سے ہوتی ہیں کہ بہو کا م نہیں کرتی۔اَرے بہو پر کام کرنا ضروری کب ہے مسئلہ کے اِعتبار سے دیکھو تو اُس پر تو روٹی پکانا بھی فرض نہیں۔ اَحقر نے عرض کیا بسا اَوقات حالات ایسے ہوتے ہیں کہ ایک ہی لڑکا ہے اُس کی بوڑھی ماں ہے خود کام کرنا اُس کے لیے مشکل ہے، اَب اگربہو لڑکا علیحدہ رہیں تو بوڑھی ماں کو کس قدر پریشانی ہوگی ۔حضرت نے فرمایاپھر بھی ساس کو بہو سے خدمت لینے کاحق نہیں ہے لڑکے کوچاہیے کہ اپنی ماں کی خدمت کرے، اُس کا اِنتظام رکھے نوکرانی لائے لیکن بیوی سے زبردستی خدمت لینے کا کوئی حق نہیں ۔اَلبتہ اَخلاقی طورپراُس کو چاہیے کہ جب وہ محتاج ہے معذور ہے تو اُس کی خدمت کرے اُس میں بہو کی تخصیص نہیں کوئی بھی محتاج معذور ہو جو شخص پاس میں ہے اَخلاقی فرض یہ ہے کہ اُس کی خدمت کرے اُس کی مدد کرے۔ میری اہلیہ نے میری ماں کی تین سال تک برابر اِس طرح خدمت کی ہے کہ پاخانہ دُھلا تیں، گود میں اُٹھاتیں ،کھلاتیں،پلاتیں ،خوب خوشی سے خدمت کرتی تھیں اَور خوشی سے کرنا بھی چاہیے، اَخلاقی فریضہ بھی یہی ہے لیکن زبردستی اِس کی منشاء کے خلاف اُس سے خدمت لینے کا حق نہیں۔ ایک صاحب نے عرض کیا کہ ہمارے گھر میں سب لوگ علیحدہ رہتے ہیں صرف کھانا ساتھ پکتا ہے ۔حضرت نے فرمایا اَرے اَصل تو یہی ہے اِسی سے تو سارے جھگڑے کھڑے ہوتے ہیں،کھانا پکانا ضرور اَلگ ہوناچاہیے۔ اہلیہ کو لے کر علیحدہ رہیے اَو روالدین کی خدمت کیجیے : رمضان میں ایک صاحب حضرت کی خدمت میںحاضرہوئے اَور یہ شکایت کی کہ میری بیوی اَور ماں میں باہم نباہ نہیں ہوتا ،آئے دِن اِختلافات اَو رکشیدگی ہوتی رہتی ہے ۔یہ کہہ کر اُن صاحب نے