ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2013 |
اكستان |
|
تو ہمیں بڑا اَندیشہ ہوا کہ معلوم نہیں کیا بات ہوئی کیا چیز پیش آئی ہے حادثہ بھی ہو سکتا ہے تو کہتے ہیں وَفَزِعْنَا اِس سے ہم چوکنَّے ہو گئے یا گھبراگئے دونوں معنی ہو سکتے ہیں۔ ہم کھڑے ہو ئے اِدھر اُدھر دیکھنے کے لیے تو کہتے ہیں کہ سب سے پہلے تو میں اِس کام کے لیے چلا اَور میں پہنچا ایک باغ میں اَور باغ میں دیکھا میں نے کہ اَندر داخل ہونے کا دَروازہ ہے یا نہیں ہے تو ایک پانی پہنچانے کی جو نالی ہوتی ہے سیراب کرنے کی وہ مجھے نظر پڑی میں اُس میں داخل ہو کر اَندر پہنچ گیا۔ تو کہتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے پوچھا مجھے دیکھ کر کہ اَبو ہریرہ ہیں ! میں نے کہا جی ہاں پوچھا کہ کیا بات ہے کیسے آئے ہو یہاں ؟ میں نے عرض کیا کہ اِس طرح تشریف فرما تھے جناب اَور تشریف لے گئے اَور دیر ہو گئی اِنتظار میں ،ہمیں خیال ہوا اَور طرح طرح کے اَندیشے ذہن میں آئے تو اِس طرح سے میرے ذہن میں سب سے زیادہ پہلے ذرا خیال آگیا میں پہلے آگیا اَور اِس طرح سے میں یہاںاَندر آگیا لیکن لوگ ضرور اِسی طرح میرے پیچھے تلاش کرتے پھر رہے ہوں گے۔ تو آقائے نامدار ۖ نے اِن لوگوں کی تشویش کا اِحساس فرمایا اَور فرمایا کہ دیکھو یہ میرے چپل ہیں نعل ہے یہ لے جاؤ اَور راستے میں جو آدمی بھی مِلے تمہیں ایسا کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی گواہی دیتا ہو خدا ہی کے قابلِ پرستش ہو نے کو مانتا ہو تو اُسے جنت کی خبر دے دو خوشخبری سنادو یَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُسْتَیْقِنًا بِھَا قَلْبُہ فَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّةِ ۔ ایک دستور : اَور نعلِ مبارک علامت تھی کہ واقعی یہ رسول اللہ ۖ کے پاس سے آئے ہیں اَور یہ پرانا دَستور چلا آرہا ہے کہ جب کوئی پیغام بھیجا جاتا تھا تو اُس میں کوئی علامت دے دی جاتی تھی تاکہ دُوسرے لوگ سمجھ جائیں کہ یہ واقعی اُن ہی کا پیغام ہے ،بہت اَہم کام ہو جیسے معاہدہ تبدیل کرنا، منسوخ کرنا تو اُس میں یہ دَستور تھا کہ اُن کا سگا عزیز کوئی آئے وہ یہ بات کہے پھر مانی جائے گی ورنہ نہیں۔ یہاں یہ ہے کہ آقائے نامدار ۖ نے اِنہیں نعلِ مبارک دے دیے اَور کہا کہ دیکھو جو بھی