ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2013 |
اكستان |
|
کرے گا تو بھی مضاربت نہیں رہے گی (کیونکہ یہ صورت مضاربت کی نہیں ہوتی مضاربت میں ایک کا روپیہ اَور دُوسرے کا کام ہوا کرتا ہے) ۔ (٨) مذکورہ بالا ممنوعہ شرائط میں سے اگر کوئی شرط رکھ لی ہو تو مضاربت ختم ہوجائے گی اَور یہ فیصلہ دیا جائے گا کہ کام کرنے والا شخص ملازم ہے۔ اِس شخص کو صاحب ِ مال اِتنی تنخواہ دینے کا ذمہ دار ہے جتنی رواجًا اِس جیسے ملازم کی ہوا کرتی ہے اَور نفع نقصان صاحب ِ مال کا ہوگا۔ اَلبتہ اگر تنخواہ کی رقم زیادہ بنتی ہو اَور نفع کم ہوا ہو تو یہ فیصلہ دیا جائے گا کہ نفع ہی دے دیا جائے اَور آئندہ کے لیے وہ اَز سرِ نو معاملہ طے کر کے کام کریں یا معاملہ ختم کردیں۔ (٩) صاحب ِ مال اگر شروع ہی میں معاملہ فسخ کرنا چاہتا ہو تو یہ دیکھا جائے گا کہ کام کرنے والے ساتھی نے سامان خریدلیا ہے یا نہیں ؟ اگر اُس نے سامان خریدلیا ہو تو اَب صاحب ِمال معاملہ کو فسخ نہیں کر سکتا اَور اگر سامان نہ خریدا ہو تو فسخ کر سکتا ہے۔ (١٠) مضاربت کے طریقہ پر تجارت غیر مسلم کے ساتھ بھی کی جا سکتی ہے۔ مُزَارَعَہْ : یعنی زمین کھیتی بونے کے لیے بٹائی پر دینی۔ یہ اِمام اَعظم اَبو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ اِمام اَعظم کے اِس فتوے پر اِمام شافعی رحمة اللہ علیہ کا عمل بھی رہا ہے۔ لیکن اِمام اَعظم رحمة اللہ علیہ کے ہر دو جلیل القدر شاگرد اِمام اَبو یوسف اَور اِمام محمد اِسے جائز قرار دیتے ہیں۔ جو حضرات مزارعت کو جائز قرار دیتے ہیں اُن کی بڑی دلیل یہ ہے کہ جناب ِ رسول اللہ ۖ نے جب خیبر کا علاقہ فتح کیا تو وہاں کی یہودی آبادی کو آپ نے وہیں رہنے دیا اَور زمین جو مسلمانوں کی ہو چکی تھی اُنہیں بٹائی پر دے دی۔ مزارعت کا نام مُخَابَرَہْ (یعنی خیبر والا معاملہ بھی ہے ) ۔