ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2013 |
اكستان |
|
قسط : ٢٢پردہ کے اَحکام ( اَز افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ) بزرگوں اَور پیروں سے پردہ : بعض جگہ یہ دَستور دیکھا ہے کہ عورتیں پیروں (اَور بزرگوں سے) پردہ نہیں کرتیں اُن کے سامنے آتی ہیں اَور غضب یہ ہے کہ بعض دفعہ تنہائی میں بھی اُن کے پاس آجاتی ہیں کہ کوئی محرم بھی اُس جگہ نہیں ہوتا یہ کس قدر حیاسوز (بے غیرتی) کا طریقہ ہے۔ بیبیو ! پیر سے صرف دین کی تعلیم حاصل کرو اِس کے سوا خدمت وغیرہ کچھ نہ کرو، نہ اُس کے سامنے آؤ ،نہ خط و کتابت کرو بلکہ جو کچھ لکھوانا ہو اَپنے مرد سے کہہ دو کہ وہ خود لکھ دے۔ اَور اگر کبھی مجبوری کی حالت میں تم کو خود ہی لکھنا پڑے تو اِس بات کا ضرور لحاظ رکھو کہ کہ خط لکھ کر اَپنے شوہر یا بھائی یا بیٹے کو دِکھلا دیا کرو اَور پتہ مرد ہی سے لکھوایا کرو ،اِس میں کوئی زیادتی نہ ہوگی اَور نہ مردوں کو اِس طرح خط و کتابت سے گرانی ہوگی اَور اَگر اِس (طرح کرنے) میں بھی اُن کے دِل پر کچھ گرانی دیکھو تو خود ہر گز خط نہ لکھو بلکہ مرد ہی سے لکھوا دیا کرو۔ مگر اَفسوس اِن باتوں کی آج کل بالکل پرواہ نہیں بلکہ یہاں تک بے حیائی ہے کہ ایک عورت نے اَپنے پیر کی شان میں عاشقانہ غزل لکھی جس میں خدو خال اَور فراق و وصال تک کا حال لکھا تھا اَور وہ غزل ایک پرچہ میںشائع ہوئی، پرچہ میرے پاس آتا تھا جب میں نے دیکھا مجھے سخت غصہ آیا اَور اِس پرچہ کا اپنے نام پر آنا بند کرا دیا، خدا جانے وہ پیر بھی کیسے تھے جنہوں نے اِس کو گوارا کیا ۔واقعی شریعت کے چھوڑنے سے حیاء و غیرت بھی بالکل جاتی رہتی ہے۔ (حقوق البیت ص ٣٣)