ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2013 |
اكستان |
|
بیوی کے حقوق : ایک عالم صاحب نے حضرت سے مشورہ لیا کہ میں مدرسہ میں پڑھاتا ہوںمیری اہلیہ مکان میں میرے ماں باپ کے پاس ہے میں اہلیہ کو مدرسہ لانا چاہتاہوں ۔مدرسہ کی طرف سے مجھے مکان ملا ہے لیکن میری والدہ اَو ر والد صاحب اِس بات پر راضی نہیں وہ کہتے ہیں کہ بیوی کو نہ لے جائو اَو ر وجہ اِس کی یہ ہے کہ اِس کے چلے آنے سے میں گھر میں خرچ کم بھیج سکوں گا بیوی رہے گی تو زیادہ بھیجوں گا اَور گھر میں مالی اِعتبار سے تنگی پریشانی بھی ہے ،ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے ؟ حضرت نے فرمایا کہ بیوی کے بہت سے حقوق ہیں اُن میںسے ایک حق یہ بھی ہے کہ جہاں خود ر ہے اپنے پاس بیوی کو رکھے۔ شریعت کا یہی حکم ہے شریعت کے حکم کے آگے سب کوجُھک جانا چاہیے ۔یہاں تک حکم ہے کہ اُس کی اِجازت کے بغیر دُوسری جگہ لیٹے نہیں اُس کے پاس ہی لیٹے ۔ حضور ۖ اِن باتوں کاکس قدر خیال فرماتے تھے ۔ایک کی باری میں دُوسری بیوی کے پاس ہرگز نہ جاتے اَور جس کی باری ہوتی اُس کے پاس ضرور جاتے، اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ رات میںبیوی کے پاس رہنا اُس کا حق ہے۔اِن باتوں کو آدمی معمولی سمجھتا ہے حالانکہ اِس کی بہت ا ہمیت ہے۔اِن باتوں کا تعلق ''حقوق العباد'' سے ہے۔ معلوم نہیں کس طرح لوگ بیویوںکو چھوڑکر مہینوں بلکہ کئی کئی سال باہر رہتے ہیں ،نہ بچوں کی فکر نہ بیوی کی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تو قانون مقرر کر دیاتھا کہ چار مہینے سے زائد کسی شخص کو بیوی سے علیحدہ رہنے کی اِجازت نہیں۔ اَو ر اَب تو لوگ سال سال بھر تک باہر رہتے ہیں، باہر ملک جا کر پیسہ کما رہے ہیں ایسا پیسہ کس کام کا،نہ بیوی کی شکل دیکھ سکے نہ بچوں کی، نہ رشتہ دَاروں سے ملاقات ،نہ ماں باپ کی خدمت ۔ ایسی عورتیں بھی سخت خطرہ میںہوتی ہیں جن کے شوہر باہر رہتے ہیں،جن کے اَندر بہت تقوٰی