ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2013 |
اكستان |
|
ضرورتوں کو پورا کرنے ہی کے لیے رکھا ہے۔ (بدائع الصنائع ج ٦ ص ٧٩) اِس تجارتی معاملہ کو طے کر نے کے لیے شریعت نے جو طریقہ بتلایا ہے اِس میں کچھ شرائط رکھ دی ہیں ۔ اگر اِن شرائط کے مطابق ہوگا تو جائز ہوگا ورنہ ناجائز۔ (١) ایک شرط یہ ہے کہ کاروبار میں جتنا روپیہ لگانا ہے وہ طے ہو اَور دُوسرے شخص کو صاف طرح بتلادیا جائے کہ میں اِتنا روپیہ دُوں گا۔ (٢) اَور روپیہ دے بھی دیا جائے تاکہ کاروبار چلنے لگے ورنہ معاملہ فاسد شمار ہوگا۔ (٣) نفع کی تقسیم بھی طے ہو کہ روپے والے کو کتنا اَور محنت والے کو کتنا نفع ملے گا اگر مقدار ِ نفع طے نہ ہوئی اگر صرف اِتنی ہی بات کی گئی ہے کہ نفع ہم دونوں کا ہوگا تو اِس صورت میں نفع آدھا آدھا ہو جائے گا۔ (بدائع الصنائع ج ٦ ص ٨٥) (٤) اگر نفع کی تقسیم کے لیے یہ طے کیا کہ نفع میں مثلاً ایک ہزار میرے (صاحب ِ مال کے) اَور باقی تمہارے (یعنی محنت کر نے والے کے) یا اِس کے بر عکس تو یہ درست نہیں۔ معین رقم نہیں طے کی جا سکتی اِس سے عقد فاسد ہوجائے گا۔ نفع معین کرنے کا طریقہ یہ ہوگا کہ روپیہ دینے والا اَپنا ایک حصہ رکھ لے نفع کا چوتھائی یا تہائی یا نصف وغیرہ جو بھی دونوں میں طے ہوجائے، اگر نفع ہوگا تو کام کرنے والا اِس میں حصہ کا حقدار ہوگا اَور نفع نہ ہوا تو نہیں۔ (٥) یہ شرط بھی درست نہیں ہے کہ اگر نفع نہ ہوا تب ہم آپ کو (کام کرنے والے کو) اَصل مال میں سے اِتنا دیں گے اِس سے بھی مضاربت میں فساد آجاتا ہے۔ (٦) اگر یہ طے کیا کہ نقصان کی صورت میں نقصان بذمۂ کا رکن ہوگا یا یہ طے کیا کہ نقصان میں دونوں (پیسے والا اَور کام کرنے والا) شریک ہوں گے تو یہ بھی غلط ہے۔ نقصان کی صورت میں صرف روپیہ دینے والا شریک ہی اِسے برداشت کرے گا۔ (٧) اگر صاحب ِ مال نے یہ طے کیا کہ میں خود یا میرا فلاں آدمی تمہارے ساتھ کام کیا