ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2013 |
اكستان |
|
لیکن اِمام اَعظم فرماتے ہیں کہ یہودیوں کے ساتھ آپ کا یہ معاملہ مزارعت کے طریقہ پر نہ تھا بلکہ یہ اُن سے خراج وصول کرنے کی ایک صورت تھی جس کی دلیل یہ ہے کہ جناب ِ رسول اللہ ۖ نے اُن سے اِرشاد فرمایا تھا نُقِرُّ کُمْ مَا اَقَرَّ کُمُ اللّٰہْ ہم تمہیں جب تک خدا چاہے گا اِس صورت پر قائم رکھیں گے۔ آپ نے اِس کے لیے کوئی مدت مقرر نہیں فرمائی تھی۔ یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ یہ خراج ہی تھا (اِسے اِمام اَعظم نے خَرَاجِ مُقَاسَمَہْ کا نام دیا ہے) کیونکہ اگر یہ مزارعت ہوتی تو جناب ِ رسول اللہ ۖ مدت ضرور مقرر فرمادیتے۔ مدّت کے تعین کے بغیر کسی کے نزدیک بھی مزارعت ٹھیک نہیں سمجھی گئی۔ نیز کسی بھی حدیث میں یہ نہیں آیاکہ جنابِ رسول اللہ ۖ نے اَور آپ کے بعد حضرت اَبوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے خیبر کے یہودیوں سے جزیہ لیا ہو۔ اگر خیبر کی زمین یہودیوں کو بٹائی پر دی گئی ہوتی تو جزیہ ضرور لیا گیا ہوتا، اِس سے مزید واضح ہو رہاہے کہ زمین یہودیوں کو بٹائی پر نہ دی گئی تھی بلکہ جزیہ وصول کرنے کایہ طریقہ اِختیار فرما لیا تھا، اِسی میں جزیہ داخل تھا، اِسی کا نام خَرَاجِ مُقَاسَمَہْ ہے۔ اَور مسلمانوں کے آپس کے معاملہ کے بارے میں حدیث میں آتا ہے : نَھَی النَّبِیُّ ۖ عَنِ الْمُخَابَرَةِ ''جناب ِ رسول اللہ ۖ نے مخابرہ (مزارعت) سے منع فرمایا ہے۔ ''یہ حدیث اِمام بخاری نے بھی تحریر فرمائی ہے۔(بخاری ج ١ ص ٣٢٠) اَلبتہ اِمام اعظم اِس صورت کو جائز قرار دیتے ہیں کہ سفید زمین کرایہ پر دے دی جائے، یہی حضرت اِبنِ عباس کا فتوی تھا (رضی اللہ عنہما) اِنَّ اَمْثَلَ مَا اَنْتُمْ صَانِعُوْنَ اَنْ تَسْتَأْجِرُوا الْاَرْضَ الْبَیْضَائَ مِنَ السَّنَةِ اِلَی السَّنَةِ۔(بخاری ج ١ ص ٣١٥) لیکن فتوی صاحبین (اِمام اَبو یوسف و اِمام محمد) کے قول ہی پر ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اِن حضرات نے تعأمل (عمل) کواہمیت دی کیونکہ تعاملِ صحابہ و تابعین خود بڑا وزن رکھتا ہے، وہ دلیلِ جواز ہے نیز اِس میں سہولت زیادہ ہے اِس لیے کہا جائے گا کہ اَفضل تو یہی صورت ہے کہ زمین کرایہ پر دے دی جائے لیکن جائز یہ بھی ہے کہ بٹائی پر دے دی جائے۔