ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2012 |
اكستان |
|
لمبی لمبی عمریں دی گئیں تھیں اَورمیری اُمت کی عمریں بہت کم ہیں ،اگر میری اُمت اَعمال کے اعتبارسے پہلی اُمتوں کا مقابلہ کرنا چاہے تو محال ہے،یہ خیال کرکے اللہ کے نبی ۖ کو اِحساس ہوا، تو اللہ تبارک تعالیٰ نے اِس کمی کو پورا کرنے کے لیے یہ رات اُمت ِمحمدیہ کو عطا فرمائی ، اگر کسی خوش قسمت کو زندگی میں چند مبارک راتیں مل گئیں تو گویا اُس نے ہزاروں سال عبادت کرلی، اللہ تبارک وتعالیٰ کا کتنا بڑا اِنعام واِکرام ہے کہ اُس نے پچھلی اُمتوں کو لمبی لمبی عمریں عطافرماکر زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کا موقع دیا اَوراِس اُمت ِمحمدیہ ۖ کی عمریں اللہ تعالیٰ نے بہت کم رکھیں تو رمضان ، شب ِقدر ، عشرہ ٔذی الحجہ وغیرہ عطا کرکے پچھلی اُمتوں سے بہت زیادہ نیکیاں کمانے کا موقع دیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اِس رات کو بندوں سے پوشیدہ رکھا ہے تاکہ لوگ اِس کی تلاش کریں اَورمتعدد راتوں میں عبادتوں میں مشغول ہوکر اپنے رب سے دُعاء واِستغفار کرکے بے پناہ ثواب پائیں ۔ اِس کے لیے کوئی رات حتمی طورپرمتعین نہیں لیکن عام طور سے اِس رات کا رمضان المبارک کی آخری راتوں میں پائے جانے کا زیادہ اِمکان ہے جیسا کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اَکرم ۖ نے فرمایا کہ شب ِقدر اِن طاق راتوں میں تلاش کرو ، وہ طاق راتیں یہ ہیں ، ٢١ویں، ٢٣ویں ، ٢٥ویں، ٢٧ویں ، ٢٩ویں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضوراَکرم ۖ سے اِرشاد نقل فرماتی ہیں کہ آپ ۖنے فرمایا کہ اِس رات کو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ اِس لیے جو شخص بھی اِس رات سے محروم رہ گیا گویا کہ وہ بڑے اَجروثواب سے محروم رہ گیا یقینا اُس شخص سے بڑا محروم القسمت کون ہو سکتا ہے جس کی زندگی میں رمضان المبارک کا مہینہ آئے اَورجس مہینہ میں لیلة القدر بھی ہو اَور وہ اُس کی قدرنہ کرے۔ ایک ملازم معمولی پیسوں کی خاطر راتوں کو جاگ سکتا ہے لیکن اِس رات کے لیے جواپنے اَندر بے شمار فضائل وبرکات رکھتی ہے اِس رات میں جاگ کر فضائل وبرکات کو اپنے دامن میںبھرے تو بھلا کیادِقت ہے ، اَصل بات یہ ہے کہ اَب وہ تڑپ ہی نہ رہی جو ہم میں ہونا چاہیے تھی، نہیں توایک رات کیا سینکڑوں راتوں کو جاگ کر گزار اجا سکتا ہے ۔ حضرت اَنس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اَکرم ۖ نے اِرشاد فرمایا کہ شب ِقدر