ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2012 |
اكستان |
|
جو لوگ ہیں اُن کو توبڑی دِقت ہوتی ہے جب چیز کی ضرورت ہو اَور نہ ملتی ہو توجوتا اُٹھانے والے جوتا شوق میں اُٹھالیتے ہیں لیکن پھر کہاں رکھ دیا اَور موجود رہیں یہ نہیں ہوتی پابندی ،بس جوتا اُٹھالیا رکھ دیا پھر کوئی خود اَپنے آپ کو کام پڑ گیا یا کوئی چیز سامنے آگئی اُدھر چل دیے اَور وہ رہ گیا۔ اَب جس سے عقیدت تھی اَور عقیدت میں اُس کے جوتے اُٹھائے تھے جب وہ فارغ ہوگا تو وہ ڈھونڈے گا خود ہی اَور اُس کی خاطر آٹھ دس آدمی اُس کے جوتوں کی تلاش میں لگیں گے تو بجائے راحت کے تکلیف کا سامان ہو گیا تو جو آدمی جوتے اُٹھاتا ہے وہ کام توبظاہر بڑا مختصر سا ہے لیکن وہ ذمہ داری کا کام ہے اَز اَوّل تا آخر حاضر باشی، اَور کب ضرورت پڑ جائے یہ کیا پتہ آدمی بیٹھے ہیں اَور اُن کو ضرورت پڑ گئی ہے کہیں جانے کی جیسے اِنسانی حوائج ہیں تو فورًا ضرورت پڑے گی اَور وہ دَرمیان کی بات ہوگئی بالکل یہ بھی نہیں کہ وقت پورا ہوا ہو بیٹھنے کا، دو گھنٹے پورے گزرے ہوں بیٹھنے کے ،نہیں آدھے گھنٹے بعد بھی ضرورت پڑسکتی ہے اُن کو اَور دو گھنٹے بعد بھی ضرورت پڑ سکتی ہے ڈیڑھ گھنٹے بعد بھی پڑسکتی ہے تو جوتے وہ اُٹھائے جو بڑا حاضر باش ہو ورنہ نہ اُٹھائے۔ تو اِن کی خصوصیات میں میںذکر کر رہا تھا کہ یہ تھیںکہ رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم کی اِس قسم کی چیزیں یہ اپنے پاس رکھا کرتے تھے اَور جب آپ تشریف فرما ہوئے ہیں دیکھا کہ اَب تھک گئے ہوں گے ٹیک لگالیں توتکیہ پیش کر دیتے تھے ،اگر باہر جانا ہے تو جوتے، اِستنجاء کے لیے جانا ہے یا وضو دوبارہ کرنی ہے تو پانی، مسواک کی ضرورت ہے تو مسواک اُن کے پاس ہے اَپنی نہیں رسول اللہ ۖ کی ،بڑے قرب کی بات بڑی سعادت کی بات ہے اَور راحت پہنچ رہی ہے یہ نہیں کہ تکلیف پہنچی ہو یا شکایت ہوئی ہو رسول اللہ ۖ کو بلکہ راحت پہنچائی ہے۔ صحابہ اِن کو اہل ِخانہ خیال کرتے تھے :حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ جب آئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم تو بہت دِنوں تک عبداللہ اِبن مسعود رضی اللہ عنہ کو یہ سمجھتے رہے ہیں کہ یہ رسول اللہ ۖ کے اہلِ خانہ میں سے ہیں کوئی رشتہ دار ہیں قرابت دار ہیں یہ ، وجہ ؟ وجہ یہ تھی کہ یہ بکثرت جاتے تھے اَور اِن کی والدہ بھی بکثرت جاتی تھیں،