ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2012 |
اكستان |
|
نہ ہوگی۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے اپنے حبیب کی یہ بے قراری نہ دیکھی گئی اَور بالآخر عریش کے اَندر آکر آپ ۖ کی رِدائے مبارک کا گوشہ ہاتھ میں لے کر کہنے لگے کَفَیْتُکَ مُنَاشَدُکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہ یعنی یا رسول اللہ ۖ بس اِتنی دُعا آپ کی کافی ہے، اُن کے کہنے سے آپ ۖ نے سر اُٹھایا توجبرائیل اَمین علیہ السلام وحی لیے ہوئے کھڑے تھے سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرْ یعنی اِن کافروں کو عنقریب ہزیمت دی جائے گی اَور پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔ حضرت شیخ ولی اللہ محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : ''حضرت صدیق ِاَکبر رضی اللہ عنہ کی فراست ِاِیمانی تو دیکھو۔ جبرائیل وحی لے کر چلے اَور اُن کے قلب ِمبارک پر اِنعکاس ہو گیا اَور وہ کہہ اُٹھے کہ ''بس اِتنی دُعا کافی ہے'' اَور اُن کا کہنا ٹھیک اُترا۔ اِس غزوہ میں لشکر کا میمنہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی ماتحتی میں تھا حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ (جو اُس وقت تک مشرف بہ اِسلام نہ ہوئے تھے اِس لڑائی میں کافروں کے ساتھ آئے تھے) میدانِ جنگ میں بڑھے تو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ تلوار کھینچ کر اپنے لخت ِجگر ١ کو اپنے ہاتھ سے قتل کرنے کے لیے گئے مگر وہ زَد سے بچ کر نکل گئے۔ ٢ بدر کی لڑائی میں جب کفار قید ہو کر آئے تو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے اُن کے قتل کی رائے سے اِختلاف کیا اَور فدیہ لے کر چھوڑ دینے کی رائے دی۔ آنحضرت ۖ نے اِن ہی کی رائے پر عمل کیا اَور اِن کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے تشبیہ دی۔ اگرچہ نتیجہ میں حضرت فاروق رضی اللہ عنہ کی فضیلت اِس معاملہ میںغالب رہی۔ ١ اِس کے بالمقابل ایک دُوسرا واقعہ اِسی غزوہ کا یہ ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ اپنے باپ کے مقابل میں آگئے ، اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ کی تصدیق اِن کے ہر ہر عمل سے ہوتی ہے۔ ٢ اِستیعاب اِبن ِعبدالبر۔