ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2012 |
اكستان |
|
یاد ہوں اَور مطالعہ کاعادی ہو ،وہ سوالات کی کثر ت سے خوش ہوا کرتے تھے۔ علم فلکیات کی کتاب ''تصریح'' پڑھاتے وقت مابین السطور بھی پڑھایا کرتے تھے۔ بہت جسیم اَور جہیرالصوت تھے تقسیم کے بعد اپنے وطن بنوں تشریف لے آئے اَور مدرسہ معراج العلوم کی بنیاد ڈالی۔ مدرسہ شاہی میں ١٩٤٤ء میں اِنہیں حدیث کی بڑی کتاب مسلم شریف دی گئی۔ حدیث ِ پاک ایسا مضمون ہے جس میں بے حد حلاوت اَور وسعت ہے چنانچہ جب اِنہوں نے معراج العلوم کی بنیاد ڈالی تو وہاں بخاری شریف بھی خود پڑھاتے رہے اَور سب علوم و فنون عقلیہ سے اِن کی طبیعت کلیةً ہٹ گئی۔ مولانا عجب نور صاحب سے حضرت مفتی صاحب رحمة اللہ علیہما نے فلسفہ، منطق (معقولات) کی بڑی کتابیں، فلکیات کی کتابیں اَور فقہ حنفی کی مہتم بالشان کتاب ہدایہ اَخیرین پڑھی۔ (٣) والد ِمحترم حضرت مولانا سیّد محمد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ سے اُنہوں نے علم اَدب (عربی) کی تمام کتابیں پڑھیں اَور حدیث کی اہم کتاب ترمذی شریف پڑھی۔ (٤) جامعہ قاسمیہ میں حضرت مولانا قاری محمد عبداللہ صاحب رحمة اللہ علیہ مدرس قراء ت و تجوید تھے اِن سے حضرت مفتی صاحب نے قراء ت ِ سبعہ و عشرہ پڑھیں، مولانا قاری عبداللہ صاحب تھانہ بھون کے رہنے والے تھے، علم قراء ت پر کمال درجہ کا عبور حاصل تھا۔ حضرت اَقدس مولانا اَشرف علی تھانوی رحمةاللہ علیہ نے تحریر فرمایا ہے کہ ''مجھے عرصہ سے مسئلہ ''ضاد'' میں اِشکال تھا جو کسی سے حل نہ ہوتا تھا حتی کہ عزیزی قاری عبداللہ آئے ۔''حضرت تھانوی کے مجموعۂ فتاوی کے پہلے نسخوں میں اِس مضمون کا نوٹ تھا جو بعد کے نسخوں میں حذف کردیا گیا حضرت مفتی صاحب اِس پر اِظہار ِ اَفسوس فرماتے تھے۔خدا وند ِکریم نے نہایت اَعلیٰ سیاسی بصیرت بھی بخشی تھی ایسی بصیرت کہ جس کی تعریف حضرت مفتی صاحب آخر وقت تک کرتے رہے۔ اُنہوں نے اَنگریز کے دَور میں تحریک ِ آزادی میں قید و بند کی صعوبتیں بھی اُٹھائی تھیں۔