ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2012 |
اكستان |
|
مولانا فخرالدین صاحب ہاپوڑ ضلع میرٹھ کے رہنے والے تھے دارُالعلوم دیوبند میں حضرت مولانا اَنور شاہ صاحب کشمیری رحمة اللہ علیہ سے بخاری شریف وغیرہ پڑھی تھی اُس زمانہ میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب مالٹہ میں اَسیر تھے۔ مولانا فخرالدین صاحب نے جب مدرسہ شاہی مراد آباد میں پڑھانا شروع کیا تو معقولات و فلکیات کی مشکل کتابیں بھی پڑھاتے رہے اُنہیں تمام علوم میں درجۂ کمال حاصل تھا۔ مدرسہ شاہی کا یہ نام اِس لیے ہے کہ وہ شہر کے وسط میں ایک مسجد کے گرد بنایا گیا ہے یہ مسجد شاہی دَور کی ہے اِس مدرسہ کی بنیاد حجةالاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمة اللہ علیہ نے رکھی تھی اِس لیے اِس کا دُوسرا نام ''جامعہ قاسمیہ'' ہے۔ اَور جب بنیاد رکھنے کے لیے اپیل کی گئی تو کہتے ہیں کہ پردیسی نے سب سے پہلے چندہ دیا تھا اَور عربی میں ''پردیسی'' کو وہاں'' غریب'' کہتے ہیں اِس لیے اِس کا نام حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ نے ''مدرسة الغربائ'' رکھا تھا۔ یہ نام وہاں پتھر پر دَرج ہے اَور رُوداد میں بھی لکھاجاتا ہے لیکن لیٹر پیڈ وغیرہ پر صرف ''جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی'' تحریر ہے۔ یہ وجہ تسمیہ عوام سے سنی گئی ہے لیکن جامعہ قاسمیہ مراد آباد کی رُوداد ١٢٩٦ھ میں یہ وجہ تحریر ہے کہ جب حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ سے مراد آباد تشریف آوری کے موقع پر مدرسہ قائم کرنے کی درخواست کی گئی تو آپ نے فرمایا تھا کہ : ''اگر تم چند آدمی متفق ہو کر غرباء سے چندہ لینا شروع کردو اَور اُمراء میں سے جو صاحب بنظر ثواب شریک ہوں اُن کو شریک کرو تو خدا کے فضل سے اُمید ہے کہ ایک رقم معقول جمع ہوجائے اَور پھر اللہ پر بھروسہ فرما کر یوں فرمایا کہ جاؤ اِس کام میں جلدی کرو۔ اَوّل ایک مدرس عربی جو جملہ کتب ِ درسیہ پڑھا سکے اُس کو بہ تنخواہ مقرر کر کے مدرسہ جاری کردو اَور اِنتظام اِس کا غرباء ہی کی رائے پر چھوڑ دو۔'' اِس کے بعد مدرسہ قائم ہوا جو ماہ ِ صفر ١٢٩٦ھ سے آج تک جاری ہے وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَعَالٰی۔ اِس درسگاہ سے بڑے بڑے علماء فارغ التحصیل ہوئے۔ سابق صدر مہتمم دارُالعلوم دیو بند