ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2011 |
اكستان |
|
صاحب ِمذہب بھی تسلیم نہ کرے گا پھر ذاتِ پاک محمدی ۖ تو خود قصرِ نبوت کی آخری تکمیلی اِینٹ تھی جس کے بعد کسی کمال کی حاجت نہیں اَور سورۂ فتح اَور سورۂ مائدہ نے اِس تکمیل پر تصدیقی مہر کردی تھی۔ اَور اگر بالفرض تکمیل ِنبوت کے لیے کسی درجہ پر شہادت کی ضرورت تسلیم بھی کرلی جائے (اگرچہ اِس کی مذہبی سند نہیں ہے) تو غزوۂ اُحد میں سیّد الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت پر اِس کی تکمیل ہوچکی تھی اَور چچا کی شہادت کے بعد نواسہ کی شہادت کا اِنتظار باقی نہ رہ گیا تھا پھر یہ بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ شہادت گومرتبۂ نبوت سے فرو ترہے لیکن رسول اللہ ۖ نے اپنی زندگی میں تکمیلِ فرضِ نبوت کی خاطر کیا کیا مصائب نہیں برداشت کیے، ہر طرح کی سختیاں سہیں، دُشمنوں کی گستاخیاں برداشت کیں، گلوئے مبارک پر پھندا ڈالا گیا، راستہ میں کانٹے بچھائے گئے، پشت ِمبارک پر نجاستوں کے اَنبار لا دے گئے، سنگباری سے جسمِ مبارک سے خون کے فوارے چھوٹے ،دَندان مبارک شہید کیا گیا، گھر سے بے گھر ہوئے، جان تک لینے کی تیاریاں کی گئیں۔ کیا میزانِ آزمائش میں شہادت کے مقابلہ میں یہ قربانیاں ہلکی رہیں گی۔ ہر گز نہیں! ایک مرتبہ جان دے دینا پھر بھی آسان ہے لیکن مسلسل مشق ِستم بنا رہنا اِس سے بہت دُشوار ہے، اِس کے علاوہ اگر مذہبی حیثیت سے اِس قسم کی خیال آرائیوں پر غور کیا جائے تو اِن کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی ۔اِس کی تائید میں کوئی ضعیف سے ضعیف روایت بھی تونہیں مِل سکتی اَور بغیر حدیث کی شہادت کے اِسے کسی طرح قبول نہیں کیا جاسکتا۔ مذہب ِاِسلام میں بہت سی گمراہیاں اِسی منصب ِنبوت کے ساتھ اِفراط وتفریط کرنے سے ہوئی ہیں۔ اِس لیے اِس قسم کے تخیلات سے محض شاعرانہ نکتہ کی حیثیت سے لطف لیا جا سکتا ہے لیکن اِسے اعتقاد نہیں بنایا جا سکتا۔ لیکن اِس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اِس شہادت کی حیثیت کیا تھی؟ کیا حضرت حسین رضی اللہ عنہ محض حصولِ خلافت کے لیے کوفہ گئے مگر اِس میں ناکام رہے اَور قتل کردیے گئے یا اِس کے اَندر کوئی اَور رَاز مضمر تھا، اگر پہلی صورت مان لی جائے تو پھر حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اَور عام حوصلہ مندوں کی قسمت آزمائی میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ اِس کے جواب کے لیے یزید کی ولی عہدی سے لے کر واقعہ شہادت تک کے حالات پر نظر ڈالنی چاہیے کہ یزید کی ولی عہدی کی مذہبی حیثیت کیا تھی اَور کن حالات میں مسلمانوں نے اُسے ولی عہد تسلیم کیا تھا اَور اُس کے ہمعصروں میں اِس منصب کے لیے اِس سے زیادہ اہل اَشخاص موجود تھے