ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2011 |
اكستان |
|
یہاں ذیل میں میں ایک بات کی طرف توجہ دِلاتا چلوں کہ صرف کوفہ کے علماء کی ٧٢ سطریں بنتی ہیں اَور پوری دُنیا کے علماء کی ١١١ سطریں اِس طرح صرف کوفہ کے علماء کی تعداد ٣٣٣ بنتی ہے۔ یہی چیز علم ِ حدیث، فقہ، اُصولِ حدیث و فقہ اَور علم ِ قراء ت کے اعتبار سے پوری دُنیا میں مذہب اہل ِ کوفہ کے غلبہ کا سبب رہی ہے۔ اِمام بخاری نے فرمایا ہے لَا اُحْصِیْ مَادَخَلْتُ الْکُوْفَةَ یعنی کوفہ جتنی دفعہ گیا ہوں اِس کا شمار نہیں۔ قراء ت روایت ِحفص آج تک پوری دُنیا میں رائج ہے یہ کوفہ ہی کی ہے اَور اِمامِ اعظم اَبوحنیفہ النعمان کی بھی۔ قراء ت ِ سبعہ متواترہ میں سے تین قاری صرف کوفہ کے ہیں اَور قراء تِ عشرہ متواترہ کے قاریوں میں چار صرف کوفہ کے ہیں ۔علماء کوفہ کی اِسی کثرت سے اِن کا علم ِ حدیث، علم ِتفسیر اَور علم ِ فقہ میں تفوق و بلند رُتبہ ہونا ظاہر ہورہا ہے۔ نیز علاوہ حدیث و فقہ کے لُغت اَور صرف و نحو میں علماء ِکوفہ اَور علمائِ بصرہ کے مذاکرات اَور آراء اَلگ مسلَّم چلی آرہی ہیں اِسی لیے قاموس وغیرہ کتب ِ لُغت میں بھی کوفہ کو '' قُبَّةُ الْاِسْلَامِ '' لکھتے ہیں۔ کوفہ کا اِس لقب سے کتب ِ لُغت تک میں ذکر کیا جانا بڑی اہم بات ہے اَور صاحب ِ قاموس تو مسلکًا بھی شافعی ہیں،بس اِس ذیلی بات کو یہیں ختم کرتا ہوں۔ ٭ اَور اَب میں آپ کے سامنے یہ بات رکھنی چاہتا ہوں کہ شریعت بل کی مذکورہ شق نمبر ٤ کی رُو سے جب کوئی قانون ساز کونسل ایک سرے سے تمام قوانین کا جائزہ لینا شروع کرے گی یا ترتیب و تدوین یا قانون سازی کرے گی تو وہ اُن مذکورة الصدر علماء میں سے کس کی تحقیق پر چلے گی؟ اِس کونسل میں شریک ہر فرد کو اِختیار ہوگا کہ وہ اُن میں سے کسی بھی ایک کی مرجوح و متروک تحقیق لے لے تو متفقہ قانون کیسے بنے گا؟ ہر ایک اپنی پسند کی رائے یا دلیل کو ترجیح دے گا اَور ایک مسئلہ بھی حل نہ ہوسکے گا خصوصًا اِس دَور میں جبکہ تقوے سے لوگ خالی ہیں اَور عُجب (خود پسندی) عام ہے۔ غرض اِس طرز پر کام کرنا بے سود بلکہ مضر ہوگا کیونکہ مدتوں پہلے اِبتدائے دَور ِتابعین و تبع تابعین میں یہ ہوچکا ہے اَور ہر مسئلہ پر بحث و تمحیص اَور علمی مذاکرے ہوچکے ہیں اِس کو میں حاکم کی اِسی کتاب میں دَرج ایک مثال پیش کرکے واضح کرنا چاہتا ہوں۔ عبد الوارِث بن سعید مکہ مکرمہ پہنچے تو اُنہیں خرید و فروخت کے معاملات میں ایک مسئلہ پیش آگیا وہاں اَبوحنیفہ ، ابن ِ اَبی لیلیٰ اَور ابن ِ شُبرمہ آئے ہوئے تھے۔ اُنہوں نے پہلے تو اَبوحنیفہ سے رُجوع کیا کہ ایک شخص نے کوئی چیز فروخت کی اَورساتھ ہی شرط بھی لگادی (مثلاً کسی نے قلم بیچا لیکن بیع کے منافی یہ شرط