ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2010 |
اكستان |
|
باقی حضرت شاہ صاحب نے آیت کا مطلب یہ لیاہے کہ مسلمانوں کو ایسے فساد (گناہ) سے بالخصوص بچناچاہیے جس کا خراب اَثر گناہ کرنے والے کی ذات سے متعدی ہو کر دُوسروں تک پہنچتاہے۔ پہلے فرمایا تھاکہ خدا اَور رسول کا حکم ماننے میںاَدنی تاخیر اَور کاہلی نہ کریں کہیں دیرکرنے کی وجہ سے دِل نہ ہٹ جائے۔ اَب تنبیہ فرماتے ہیں کہ اگر نیک لوگ کاہلی کریں گے تو عام لوگ بالکل چھوڑ دیں گے تو رسم ِ بدپھیلے گی اِس کا وبال سب پرپڑے گا جیسے جنگ میں دلیر سستی کریں تو نامرد بھاگ ہی جائیں پھر شکست پڑے تو دلیربھی نہ تھام سکیں۔'' قرآن پاک کی اِس تفسیر کی روشنی میں ہم اگر اپنے صبح وشام کے اعمال کو جانچیں تو اُن میں سوائے خسارے کے کاموں کے کچھ نہ ہوگالہٰذا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو ختم کرنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ عوام وخواص سچے دل سے عملی توبہ کرکے گناہوں سے باز آجائیںوگرنہ اللہ بے نیاز ہے اُسے نہ ہماری نیکیوں کی ضرورت ہے اَور نہ برائیوں کی پروا۔وما علینا الاالبلاغ۔