ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2010 |
اكستان |
صدقۂ فطر کے احکام ( حضرت مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب رحمة اللہ علیہ ) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضوراَقدس ۖ نے صدقہ فطر کو ضروری قرار دیا۔ (فی کس) ایک صاع کھجوریں یا اِسی قدر جودیے جائیں ۔غلام اَور آزاد ،مذکر اَورمونث (یعنی مرد اَور عورت) اَورہر چھوٹے بڑے مسلمان کی طرف سے ،اَور نمازِ عید کے لیے لوگوں کو جانے سے پہلے اَدا کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ (مشکٰوة شریف ص ١٦٠ بحوالہ بخاری ومسلم) صدقہ فطر کس پر واجب ہے : صدقہ فطر اُس شخص پر واجب ہے جس پر زکٰوة فرض ہو یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اُس کی قیمت اُس کی ملکیت میں ہو یا اگر سونا چاندی اَور نقد رقم نہ ہو اَور ضرورت سے زائد سامان موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی بن سکتی ہوتو اُس پر بھی صدقہ الفطر واجب ہے۔ زکٰوة فرض ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ مال نصاب پر چاند کے حساب سے ایک سال گزر جائے لیکن صدقہ فطر واجب ہونے کے لیے یہ شرط نہیں ہے ۔اگر رمضان المبارک کی تیس تاریخ کو کسی کے پاس مال آگیا جس پر صدقہ فطر واجب ہو جاتا ہے تو عیدالفطر کی صبح صادق ہوتے ہی اُس پر صدقہ فطر واجب ہو جاتاہے۔ صدقہ فطر کے فائدے : صدقہ فطر اَدا کرنے سے ایک حکم شرعی کے اَنجام دینے کا ثواب تو ملتا ہی ہے ۔اِس کے ساتھ دو مزیدفائدے اَور ہیں ۔ اَوّل یہ کہ صدقہ فطر روزوں کو پاک صاف کرنے کا ذریعہ ہے، روزے کی حالت میں جو فضول باتیں کیں اَورجو خراب اَور گندی باتیں زبان سے نکلیں صدقہ فطر کے ذریعے روزے اُن چیزوں سے پاک ہوجاتے ہیں۔