ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2010 |
اكستان |
|
اُمت ِمسلمہ کی مائیں قسط : ١٩ حضرت جویریہ بنت حارث رضی ا للہ تعالیٰ عنہما ( حضرت مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب بلند شہری ) حضر ت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کرنے کے بعد آنحضرت ۖ نے حضر ت جویریہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا۔ اِن کے والد کا نام حارث تھا۔ غزوۂ بنی المصطلق کے موقع پر قید ہو کر آئی تھیں جس کی پوری تفصیل یہ ہے کہ آنحضرت ۖ کو خبر پہنچی کہ قبیلہ بنی المصطلق کے لوگ مجھ سے جنگ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں جن کا قائد حارث بن ابی ضرار ہے (یہ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے والد تھے بعد میں مسلمان ہوئے ) لہٰذا آنحضرت ۖ سات سو صحابہ کو لے کر اپنے پیچھے مدینہ منورہ کا اِنتظام حضرت ابو ذر غفاری یا نمیلہ بن عبد اللہ اللیثی کے سپرد کر کے بنوالمصطلق سے جہاد کرنے کے لیے روانہ ہوئے ،یہ شعبان ٥ ہجری یا ٦ھ کا واقعہ ہے۔ چلتے چلتے بنو المصطلق سے ایک تالاب کے کنارے مڈ بھیڑ ہوگئی جسے مُرَیْسِیعْ کہتے ہیں۔ اِسی وجہ سے اِس غزوہ کو غزوۂ المریسیع بھی کہتے ہیں۔ حملہ کرنے سے پہلے آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ دُشمنوں سے پکارکر کہہ دو : قُوْلُوْا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ تَمْنَعُوْا بِہَا اَنْفُسَکُمْ وَاَمْوَالَکُمْ۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا اِقرار کر لو۔ا یسا کرنے سے تمہاری جان ومال محفوظ ہوجائیں گے لیکن دُشمنوں نے مبارک کلمہ کے پڑھنے اَور ماننے سے اِنکار کردیا اَور تیرپھینکنے شروع کر دیے لہٰذا آنحضرت ۖ نے صحابہ کو حملہ کرنے کا حکم دیا چنانچہ سب صحابہ نے بیک وقت اُن پر حملہ کردیا جس کے نتیجہ میں بنو المصطلق نے شکست کھائی اَور بنو المصطلق کے دس آدمی مارے گئے۔جن میں سے دو آدمیوں کو سیدنا علی مرتضی کرم اللہ وجہہ نے قتل کیا اَور ایک صحابی حضرت ہشام رضی اللہ عنہ نے جام ِ شہادت نوش کیا۔(البدایہ) حرم ِ نبوت میں آنا : اِس غزوہ میں بڑی بھاری تعداد میں قیدی ہاتھ آئے اَور مال بھی بہت ملا۔ حضرت جویریہ بھی