ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2010 |
اكستان |
|
حضرت امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کا یہی مذہب ہے ۔لہٰذا اگر صدقہ فطر میںجَودے تو ایک صاع دے اَور گیہوں دے تو آدھا صاع دے ۔حضورِ اقدس ۖ کے زمانے میں جو اَور گیہوں وغیرہ ناپ کر فروخت کیا کرتے تھے اَوراِن چیزوں کو تولنے کے بجائے ناپنے کا رواج تھا ۔اُس زمانے میں ناپنے کا جو ایک پیمانہ تھا اُسی کے حساب سے حدیث شریف میں صدقہ فطر کی مقدار بتائی ہے۔ ایک صاع کچھ اُوپر ساڑھے تین سیر کا ہوتا تھا ۔ہندوستان کے بزرگوں نے جب اِس کا حساب لگایا تو ایک شخص کا صدقہ فطر گیہوں کے اعتبار سے اَسی تولے کے سیر سے ایک سیر ساڑھے بارہ چھٹانک ہوگا ۔عام طورسے کتابوں میں عوام کی رعایت سے یہی تول والی بات لکھی جاتی ہے ۔اگر ایک گھر میں میاں بیوی اَور چند نابالغ بچے ہوں تو مرد پر اپنی طرف سے ہر نابالغ اَولاد کی طرف سے صدقہ فطر میں فی کس ایک سیر ساڑھے بارہ چھٹانک گندم یا اُس کا دوگنا جو یا چھوارے یا کشمکش یا پنیر دینا واجب ہے ۔بیوی کی طرف سے مرد پر صدقہ فطر دینا واجب نہیں ہے اور ماں جتنی بھی مالدار ہے نابالغ اَولاد کا صدقہ فطر اُس کو اَدا کرنا واجب نہیں،یہ صدقہ باپ پر واجب ہوتا ہے۔ صدقہ فطر کی اَدائیگی کا وقت : صدقہ فطر عید کے دن کی صبح کے طلوع ہونے پر واجب ہوتا ہے ۔اگر کوئی شخص اِس سے پہلے مرجائے تو اُس کی طرف سے صدقہ فطر واجب نہیں ۔ مسئلہ : صدقہ فطر عید سے پہلے بھی اَدا کیا جاسکتا ہے ۔اگر پہلے اَدا نہ کیا تو عید کی نماز کے لیے جانے سے پہلے اَدا کردیا جائے ۔اگر کسی نے نماز عید سے پہلے یا بعد نہ دیا تو ساقط نہ ہوگا اِس کی ادائیگی برابر ذمہ رہے گی ۔ مسئلہ : جو بچہ عید الفطر کی صبح صادق ہو جانے کے بعد پیدا ہوا ہو ،اُس کی طرف سے صدقہ فطر دینا واجب نہیں۔ نابالغ کی طرف سے صدقہ فطر : اگر کسی نابالغ کی ملکیت میں خود اپنا مال ہو جس پر صدقہ فطر واجب ہوتا ہے تواُس کاوارِث اُسی کے مال سے اُس کا صدقہ فطر اَدا کرے، اپنے مال سے دینا واجب نہیں ۔ سوال : بچہ کی ملکیت میں مال کہاں سے آئے گا؟