ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2010 |
اكستان |
|
غلام بنا کر تقسیم کر دیے تھے ۔ نکاح کی خبر پھیلتے ہی حضرات صحابہ نے سب کو اِس احترام کے پیشِ نظر آزاد کردیا کہ اَب تویہ سیّد عالم ۖ کے سسرال والے ہوگئے اِن کوغلام بنا کر کیسے رکھیں؟ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیںکہ میں نے آنحضرت ۖ سے اِس بارے میں گفتگو بھی نہ کی تھی مسلمانوں نے خود ہی میری قوم اَور خاندان والوں کو آزاد کر دیا جس کی خبر میری ایک چچا کی لڑکی نے مجھے دی، یہ سن کر میں نے اللہ کا شکر اَدا کیا۔ (البدایہ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اِس واقعہ کے متعلق فرمایا : فَلَقَدْ اُعْتِقَ بِتَزْوِیْجِہ اِیَّاھَا مِأَةُ اَھْلِ بَیْتٍ مِّنْ بَنِی الْمُصْطَلِقِ فَمَا اَعْلَمُ امْرَأَةً اَعْظَمَ بَرَکَةً عَلٰی قَوْمِھَا مِنْھَا۔ (البدایہ والاصابة) آنحضرت ۖ کے جویریہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لینے سے بنو المصطلق کے سو گھرانے آزاد ہوئے، میں نے کوئی عورت ایسی نہیں دیکھی جو جویریہ سے بڑھ کر اپنی قوم کے لیے بڑی برکت والی ثابت ہوئی ہو۔ سیّد عالم ۖ کو چھوڑ کرباپ کے ساتھ جانے سے اِنکار : جب آنحضرت ۖ نے حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کرا کے اُن سے اپنا نکاح فرمالیاتو حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے والد آنحضرت ۖ کی خدمت میں حاضر ہوئے اَور عرض کیا میری بیٹی بڑی معزز ہے جسے قیدی بنا کر رکھنا گوارا نہیں ہے۔ لہٰذا آپ ۖ اِسے چھوڑ دیجیے۔ آپ ۖ نے فرمایا اگر میں اختیار دے دُوں کہ جی چاہے تو چلی جائے اَور چاہے تو میرے پاس رہے تو اِس کو تم اچھا سمجھتے ہو؟ حارث نے جواب دیا جی ہاں بہت مناسب ہے۔ اِس کے بعد حارث اپنے بیٹی کے پاس آئے اَور پورا واقعہ نقل کیا کہ رسول اللہ ۖ نے تجھے اِختیار دے دیاہے کہ چاہے توچلی جاوے، لہٰذا میرے ساتھ چل، حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں فرمایا : اِخْتَرْتُ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ میں اللہ اَور اُس کے رسول ۖ کو اختیار کرتی ہوں، تمہارے ساتھ نہ جاؤں گی۔(الاصابہ) والد کا مسلمان ہونا : آنحضرت ۖ کا ایک معجزہ دیکھ کر حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے والد بھی مسلمان ہوگئے تھے