ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2010 |
اكستان |
رہی ہے کہ تم پر اللہ کا عذاب آنے والاہے اَب توبہ اِستغفار کرو'' اِسی گاؤں میں مولوی طاہر زمان صاحب کے ماموں نے خواب دیکھا کہ ''دوبچے کہہ رہے ہیں تم پر اللہ کا عذاب آنے والا ہے اَور تم پر زمین وآسمان کو ایک کر دیا جائے گا توبہ اِستغفار کرو۔'' میں نے مولوی طاہر زمان صاحب سے پوچھاکہ گاؤں والوں کی دینداری کا کیا حال ہے تواُنہوں نے بتلا یا کہ گاؤں میں بیمہ والوں کی ٹیم آئی تو ہر عورت مرد اَور بڑے چھوٹے نے بیمہ کرا یا سود عام ہے نماز کوئی نہیں پڑھتا ایک گاؤں میں سرے سے مسجد ہی نہیں ہے میں نے مسجد بنانے کی کوشش کی تو گاؤں والوں نے کہا کہ قریبی گاؤں میں پہلے سے مسجدموجود ہے مگر اِس میں کوئی نماز نہیں پڑھتالہٰذا اُنہوںنے مسجد نہ بنانے دی، میں نے مسجد میں بچوں کوقرآن اَور دینیات پڑھانے کا اِرادہ کیاتو اُس میں بھی ناکامی ہوئی۔ عادت اللہ ایسے ہی جاری ہے کہ جب ہرخاص و عام گناہوںمیں ڈوب جائے تو اللہ تعالیٰ ایسا عذاب نازل فرماتے ہیں کہ پھر دُنیا میں اِس سے نیک و بدظالم اَور مظلوم کوئی نہیں بچتا اَور ہر کوئی اِس کی لپیٹ میں آجاتا ہے اگرچہ آخرت میں اُن کا حشر اُن کے اعمال کے مطابق الگ الگ ہوگا۔ باری تعالیٰ کا اِرشاد ہے : وَاتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّةً وَّاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ترجمہ: اَور بچتے رہو اُس فساد سے کہ نہیں پڑے گا تم میں سے صرف ظالموں پر ہی اَور جان لو کہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔ اِس آیت کی تفسیر میں حضرت مولانا علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ : ''یعنی فرض کیجیے ایک قوم کے اکثر افراد نے ظلم و عصیان کاوتیرہ اِختیار کر لیا ، کچھ لوگ جو اُس سے علیحدہ رہے اُنہوں نے مداہنت برتی، نہ نصیحت کی اَور نہ اِظہار ِ نفرت کیا تو یہ فتنہ ہے جس کی لپیٹ میں وہ ظالم اَوریہ خاموش مداہن سب آجائیں گے۔ جب عذاب آئے گا تو حسب ِ مراتب سب اُس میں شامل ہوں گے کوئی نہ بچے گا اِس تفسیر کے موافق آیت سے مقصود یہ ہوگا کہ خدا اَور رسول کی حکم برداری کے لیے خود تیار ہو اَور نافرمانوں کو نصیحت و فہمائش کرو نہ مانیں تو بیزاری کا اِظہار کرو۔