ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2010 |
اكستان |
|
رشتہ داروں کو صدقہ فطر دینے میں تفصیل : اپنی اَولاد کو یا ماں باپ اَورنانا نانی دادا دادی کو زکٰوة اَورصدقہ فطر نہیں دے سکتے البتہ دُوسرے رشتہ داروں کو مثلاً بھائی، بہن، چچا، ماموں، خالہ وغیرہ کو دے سکتے ہیں شوہر بیوی کو یا بیوی شوہر کو صدقہ فطر دے تو ادائیگی نہ ہو گی اَورسیّدوں کوبھی صدقہ فطر دینا جائز نہیں۔ فائدہ : بہت سے لوگ پیشہ ور مانگنے والوں کے ظاہری پھٹے پرانے کپڑے دیکھ کر یا کسی عورت کو بیوہ پاکر زکٰوة اَور صدقہ فطر دیتے ہیں حالانکہ بعض مرتبہ بیوہ عورت کے پاس بقدرِ نصاب زیور ہوتا ہے اِسی طرح روزانہ کے مانگنے والوں کے پاس اچھی خاصی مالیت ہوتی ہے ایسے لوگوں کودینے سے ادائیگی نہ ہو گی۔ زکٰوة اَور صدقہ فطر کی رقم خوب سوچ سمجھ کر دینا لازم ہے۔ رشتہ داروں کو دینے سے دوہرا ثواب ہوتا ہے : جن رشتہ داروں کو زکٰوة اَورصدقہ فطر دینا جائز ہے اُن کو دینے سے دوہرا ثواب ہوتا ہے کیونکہ اِس میں صلۂ رحمی بھی ہوجاتی ہے۔ نوکروں کو صدقہ دینا : اپنے نوکروں کو بھی زکٰوةاَورصدقہ فطر دے سکتے ہیں مگر اُن کی تنخواہ میں لگانا دُرست نہیں۔ بالغ عورت اگر صاحب ِنصاب ہو : اگر بالغ عورت اِس قابل ہے کہ اُس کو صدقہ فطر دیا جا سکے تو اُسے دے سکتے ہیں اگرچہ اُس کے میکہ والے مالدار ہوں۔