ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2010 |
اكستان |
دُوسرا فائدہ یہ ہے کہ عید کے دِن ناداروں اَور مسکینوں کی خوارک کا اِنتظام ہو جاتا ہے اَور اِسی لیے عید کی نماز کو جانے سے پہلے صدقہ فطر اَدا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ دیکھو کتنا سستا سودا ہے کہ محض دو سیر گیہوں دینے سے تیس روزوں کی تطہیر ہو جاتی ہے یعنی لایعنی اَور گندی باتوں کی روزے میں ملاوٹ ہو گئی اِس کے اثرات سے روزے پاک ہو جاتے ہیں ۔ گویا صدقہ فطر اَدا کردینے سے روزوں کی قبولیت کی راہ میں کوئی اَٹکانے والی چیز باقی نہیں رہ جاتی ہے ۔ اِسی لیے بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ اگر مسئلہ کی رُو سے کسی پر صدقہ فطر واجب نہ ہو تب بھی دے دینا چاہیے ۔ خرچ بہت معمولی ہے اَور نفع بہت بڑا ہے۔ کس کی طرف سے صدقہ فطر اَدا کیا جائے : صدقہ فطر بالغ عورت پر اپنی طرف سے دینا واجب ہے شوہر کے ذمہ اُس کا صدقہ فطر اَدا کرنا ضروری نہیں ۔ہاں شوہر کی جو نابالغ اَولاد ہے اُس کی طرف سے بھی اِس پر صدقہ فطر دینا واجب ہے ۔بچوں کی والدہ کے ذمے بچوں کا صدقہ فطر دینا لازم نہیں ہے ۔اگر بیوی کہے کہ میری طرف سے اَدا کردواَور شوہر بیوی کی طرف سے اَدا کردے تو اَدا ہوجائے گا اگرچہ اُس کے ذمہ بیوی کی طرف سے اَدا کرنا لازم نہیں ہے۔ جب مسلمان جہاد کیا کرتے تھے تو اُن کے پاس جو کافر قیدی ہو کر آتے تھے اُن کو غلام اَور باندی بنالیا جاتا تھا جس کی ملکیت میں غلام یا باندی ہو اُس کے اُ وپر غلام اَورباندی کی طرف سے بھی صدقہ فطر دینا واجب ہوتا تھا ۔آج کل کہیں اگر جنگ ہوتی ہے تو وطنی اَورملکی لڑائی ہوتی ہے شرعی جہاد ہوتا نہیںلہٰذا مسلمان غلام اَور باندی سے محروم ہیں۔ صدقہ فطر میں کیا دِیا جائے : حضور اَقدس ۖ نے صدقہ فطر دینے کے سلسلے میں دینارودرہم یعنی سونے چاندی کا سکہ ذکر نہیں فرمایا بلکہ جو چیزیں گھروں میں عام طورسے کھائی جاتی ہیں اُن ہی کے ذریعہ صدقہ فطر کی اَدائیگی بتائی ۔ حدیث بالا میں جس کا ترجمہ ابھی ہوا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فی کس صدقہ فطر کی اَدائیگی کے لیے دینے کا ذکر ہے۔ دُوسری حدیثوں میںایک صاع پنیر یا ایک صاع زبیب یعنی کشمش دینے کا بھی ذکر آیا ہے اَور بعض روایات میں ایک صاع گیہوں دوآدمیوں کی طرف سے بطورِصدقہ فطر دینا بھی وارِد ہوا ہے۔