ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2010 |
اكستان |
|
اِسلام کی اِنسانیت نوازی ( حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری،اِنڈیا ) اِسلام میں عورتوںکا مرتبہ : مذہب اِسلام میں صنف ِنازک خواتین کو اُن کا حقیقی اَور واقعی مرتبہ عطا کرنے پر بھی بھر پور توجہ دی گئی ہے۔ اِسلام کی آمد سے قبل دُنیا میں عورتوں کا بدترین اِستحصال عام تھا۔ دُنیا کے کسی بھی مذہب اَور قوم میں عورتوں کو واقعی حقوق حاصل نہیں تھے ہر جگہ عورت کو محض ایک باندی اَور مرد کی تسکینِ قلب کا ذریعہ سمجھ کر معاملہ کیا جاتا تھا، حتی کہ بہت سے شقی القلب اَفراد رشتۂ دامادی سے بچنے کے لیے اپنی معصوم بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کردیا کرتے تھے۔ ایسے سنگین ظالمانہ ماحول میں اِسلام نے عورت کو عزت دینے کا نعرہ بلند کیا اَور ثابت کیا کہ عورت اَور مرد دونوں کی پیدائش کا تسلسل ایک ہی ذات حضرت آدم علیہ السلام تک جا پہنچتا ہے۔ لہٰذا اِن دونوں اَصناف میں ظالمانہ تفریق کی کو ئی گنجائش نہیں بلکہ اِخلاقی سماجی اَور جسمانی ساخت کے اعتبار سے دونوں کے حقوق اَور ذمہ داریاں متعین ہیں اَور ہرصنف کو اپنے حقوق کے مطالبہ اَور اپنی ذمہ داریاں بجالانے کا یکساں حق حاصل ہے۔ اللہ تعالی نے اِرشاد فرمایا : وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَة.(سورة البقرہ ٢٢٨) ''اور عورتوں کا بھی حق ہے دستور کے موافق اَور مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے۔'' مردوں کو عورتوں پر ایک گونہ فضیلت صرف دُنیوی نظام کی بقاء کے لیے ہے ورنہ اللہ کی نظر میں محض کسی شخص کا مرد ہونا نہ تو قبولیت کی دلیل ہے اَور نہ عور ت کا عورت ہونا اُس کی مقبولیت میں رُکاوٹ ہے بلکہ اللہ کے یہاں اصل معیار اُس کے احکامات بجا لانا ہے۔ لیکن چونکہ مرد وعورت کی ساخت اور جسمانی بناوٹ میں قدرتی فرق ہے اِس لیے اِسلام نے دونوں کی ذمّہ داریاں الگ الگ کر دی ہیں مساوات کانعرہ لگا کر اِن فطری ذمّہ داریوں کو خلط ملط کیا جائے گا تو اِنسانیت مجروح ہوجائے گی اور نظام کائنات ''غت ربود''