ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2010 |
اكستان |
|
ایک اَور مرزا غلام اَحمد قادیانی! ( حضرت مولانا اللہ وسایا صاحب ) اَنگریز کے عہد ِاقتدار میں قادیان تحصیل بٹالہ ضلع گوردا سپور موجودہ بھارتی پنجاب میں ١٨٤٠ء میں ایک شخص پیدا ہوا جس کا نام ''مرزا غلام احمد قادیانی'' تھا۔ بڑے ہو کر اُس نے انگریز کی حمایت میں کتابیں تصنیف کیں جن سے پچاس اَلماریاں بھر سکتی تھیں۔ پچاس گھوڑے اِس کے باپ نے انگریز فوج کو گفٹ میں دیے، پچاس سوار بھی ساتھ تھے۔ گویا مرزاغلام احمد قادیانی جدی پُشتی طور پر انگریز کا زلہ خوار اَور نمک پروردہ تھا۔ اِس نے انگریزی حکومت کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی طرح فرض قرار دیا، خود کو انگریز کا ''خود کاشتہ پودا '' قرار دیا، ملکہ وکٹوریہ کے وجود کو زمین کا نور قرار دیا اَور خود کو آسمانی نور قرار دیا۔ اِسی مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا جھوٹا دعوی کیا ۔ تمام مسلمانوں کو جو مرزا غلام احمد قادیانی کو نہیں مانتے اُنہیں کافر قرار دیا۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی بیوی کو اُم المؤمنین کہا۔ اپنے خاندان کو اہلِ بیت اَور اپنی اَولاد کو پنجتن قراردیا۔ دُنیا بھر کے مسلمانوں کو مرزا غلام احمد قادیانی نے کنجریوں کی اَولاد ، اپنے مخالفین کو ولد ا لحرام کہا۔ غرض مرزا قادیانی ایک اَیسا ملعون شخص تھا جو خالصتًا انگریزی حکومت کے مفادات کے لیے اُمت ِ مسلمہ کی وحدت کو عمر بھر پارہ پارہ کرتا رہا۔ مارِ آستین بن کر اُس نے اُمت ِمسلمہ کے زخمی وجود پر اپنے زہر بھرے ایسے ایسے ڈنگ مارے کہ جس سے اُمت ِ مسلمہ نیم جان ہوگئی۔ اِس ملعون مرزا قادیانی نے اپنے ایک مخالف مولانا ثناء اللہ امر تسری اَور اپنے ایک سابقہ (نام نہاد) صحابی ڈاکٹر عبد الحکیم خان کو چیلنج دیا کہ سچے کی زندگی میں جھوٹا مرجائے گا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اپنے کذب میں مرزا قادیانی سچا نکلا کہ اپنے دونوں مخالفوں کی زندگی میں خود مر کر اپنے کذب پر مہر لگا گیا۔ مرزا قادیانی کی موت اِس کے اپنے خسر نواب میر ناصر کی تحریر کے مطابق وبائی ہیضہ سے ہوئی۔ چنانچہ مرزا قادیانی کی دُوسری بیوی نصرت جہاں نے اپنے بیٹے بشیر احمد کو کہا کہ تمہارے ابو کو کھانا کھاتے وقت قے آئی پھر دست آیا۔ پھر قے و دستوں کے دَورے شروع ہوئے تو ایسی حالت میں قضائے حاجت کر کے