ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2010 |
اكستان |
|
کا نام حمزہ رکھا اَور جب حسین رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو اِن کا نام جعفر رکھا۔ فرماتے ہیں چنانچہ مجھے حضور ۖ نے بُلایا اَور فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اپنے اِن دونوں بیٹوں کانام بدل دُوں۔میں نے عرض کیا اللہ اَور اُس کا رسول زیادہ جانتا ہے پس آپ ۖنے اِن دونوں کا نام حسن اَور حسین رکھا۔ حسنِ اِتفاق سے حضرت شیخ الاسلام کے دونوں ناموں میں آنحضرت ۖ کے پسندیدہ اسماء ''محمد''اور ''حسین احمد'' موجود ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فَنَائْ فِی الرَّسُوْل بنانے کے لیے شروع ہی سے منتخب فرمالیا تھا۔ ایں سعادت بزورِ بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ طالب ِعلمی کی خصوصیات : یہ بھی حسنِ اِتفاق ہے کہ آپ کی اُردو کی تعلیم پدرِ بزگوار(حبیب عجمی ثانی) کے سامنے ہوئی اَور شفیق باپ نے علم کے ساتھ ساتھ رُوحانی اَدب سکھایاکہ جس کی وجہ سے آپ جب ١٣ سال کی عمر ١٣٠٩ھ میں دیوبند پہنچے تو اَساتذہ کا حد درجہ احترام اَور اُن کی خدمت کرتے تھے چنانچہ نقشِ حیات میں تحریر فرماتے ہیں : ''اَور چونکہ میں حساب اَور تحریر وغیرہ سے بخوبی واقف تھا خط بھی فی الجملہ اچھا تھا اِس لیے اَساتذہ کے یہاں خانگی خطوط اَور خانگی حسابات کی خدمت اَور گھروں میں جانا اَور پردہ کا نہ کیا جانا وغیرہ کا سلسلہ کئی برس تک جاری رہا بالخصوص حضرت شیخ الہند کی اہلیہ محترمہ بہت زیادہ شفقت فرماتی تھیں، مستوراتی منشی مشہور ہوگیا تھا۔(نقشِ حیات ص ٤٣ ج١) چنانچہ اِس خداداد جذبۂ خدمت اَور اِشتغال بالعلم نے آپ کو اَساتذہ کا منظورِ نظر بنادیاتھا۔ حضرت شیخ الہند نے باجود یکہ اُوپر کی بڑی کتابوں کا درس دیتے تھے لیکن اِس فرزندِاَر جمند کو ہونہار اَور سعادت مند دیکھتے ہوئے خارج اَوقات میں اِبتدائی کتابیں بھی خود ہی پڑھائیں۔ اِن تمام توجہات اَور شفقتوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ آپ دارُالعلوم کے امتحانِ سالانہ میں اَوّل نمبروں سے کامیاب ہوتے رہے۔ (جاری ہے)