ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2010 |
اكستان |
|
حرف اول نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امابعد! گزشتہ ماہ راقم الحروف حجازِ مقدس کے سفر پر تھا ٢٠ جون کی بات ہے مکہ مکرمہ میں صبح تین بجے حرم شریف جانے کے لیے اپنے فُندق سے باہر نکلا ہی تھا کہ دیکھا کہ کچھ لوگ سہمے ہوئے پُرتجسس اَنداز میں کچھ دیکھ رہے ہیں میں نے بھی اِس طرف دیکھا تو تین چار سعود ی پولیس والے ایک نوجوان پر قابو پانے کے لیے اُس سے گتھم گتھا ہیں مگر مظبوط جسم کا پُھر تیلا غیر عرب نوجوان ہر بار اُن کے قابو سے باہر ہوجاتا اُس کی آخر دم تک سر توڑ کوشش رہی کہ کسی طرح اُن کے چنگل سے نکل بھاگے مگر ایسا ممکن نہ تھا بالآخر ایک پولیس والے نے اُس کو ٹانگوں سے پکڑ کر اُٹھایا اَور زمین پر گرادیا مگر سخت جان نوجوان اپنی سی کوشش سے اَب بھی دستبردار نہ ہوا۔ بہرحال کسی نا کسی طرح پولیس نے اُس کو قابو کر کے ہتھکڑی لگا ئی اَور پکڑ کر اپنی گاڑی میں بٹھا دیا۔ اِس سارے واقعہ میں جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ ملزم کی شدید مزاحمت کے باوجود پولیس نے اُس کو مارنا تو کجا مارنے کے اِرادے سے اُنگلی بھی نہ لگائی اَور نہ ہی کسی قسم کی گالم گلوچ کی، البتہ اُس کی مزاحمت توڑنے کے لیے جوضروری اقدام کیا جانا چاہیے تھا بس وہ کیا اَور کوئی ایسی چیز نہ کی جو اُس کی عزت ِ نفس کو پامال کرتی بالکل اِس طرح جیسے جانور کو ذبح کر نے کے لیے پچھا ڑا اَور باندھا جاتاہے مار پیٹ نہیں کی جاتی ۔ اسلامی قوانین میں بھی اِس بات کا خیال رکھا جاتا ہے اَور عقلِ سلیم بھی یہی کہتی ہے کہ جب تک کسی کا جرم ثابت نہ ہو جائے اُس کو سزا نہیں دی جا سکتی اَور جرم کا ثبوت اَور عدم ِ ثبوت عدالت میں ہوتا ہے پولیس کا