ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2009 |
اكستان |
|
سب سے پہلی بات تویہ ہے کہ ٢٧رجب کے بارے میں یقینی طورپر نہیں کہا جا سکتا کہ یہ وہی رات ہے جس میں نبی کریم ۖ معراج پر تشریف لے گئے تھے کیونکہ اس باب میں مختلف روایتیں ہیں۔ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ۖ ربیع الاول کے مہینے میںتشریف لے گئے تھے ، بعض روایتوں میںرجب کا ذکر ہے، اوربعض روایتوں میں کوئی اورمہینہ بیان کیا گیا ہے ۔ اس لیے پورے یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ کون سی رات صحیح معنٰی میں معراج کی رات تھی جس میں آنحضرت ۖ معراج پر تشریف لے گئے ۔ اس سے آپ خود اندازہ کرلیں کہ اگر شب ِمعراج بھی شب ِقدر کی طرح کوئی مخصوص رات ہوتی اوراس کے بارے میں کوئی خاص احکام ہوتے جس طرح شب ِقدر کے بارے میں ہیں تو اِس کی تاریخ اورمہینہ محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ لیکن چونکہ شب ِمعراج کی تاریخ محفوظ نہیں تو اب یقینی طورسے ٢٧رجب کو شب ِمعراج قرار دینا درست نہیں اوراگر بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ آپ ۖ ٢٧ رجب ہی کو معراج کے لیے تشریف لے گئے تھے جس میں یہ عظیم الشان واقعہ پیش آیا اور جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ۖ کو یہ مقام قرب عطا فرمایا ، اور اپنی بارگاہ میں حاضری کا شرف بخشا ،اور اُمت کے لیے نمازوں کا تحفہ بھیجا ، تو بے شک وہی ایک رات بڑی فضیلت والی تھی ۔کسی مسلمان کو اس کی فضیلت میں کیا شبہہ ہوسکتا ہے؟ لیکن یہ فضیلت ہر سال آنے والی ٢٧رجب کی شب کو حاصل نہیں۔ پھر دوسری بات یہ ہے کہ (بعض روایتوں کے پیشِ نظر ۔ ناقل )یہ واقعۂ معراج سن٥نبوی میں پیش آیا ۔یعنی حضور ۖ کے نبی بننے کے پانچویں سال یہ شب معراج پیش آئی جس کا مطلب یہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد ١٨سال تک آپ دنیا میں تشریف فرمارہے لیکن اِن اٹھارہ سال کے دوران یہ کہیں ثابت نہیں کہ آپ ۖنے شب ِمعراج کے بارے میں کوئی خاص حکم دیا ہو، یا اِس کو منانے کا اہتمام فرمایا ہو، یااِس کے بارے میں یہ فرمایا ہو کہ اِس رات میں شب ِقدر کی طرح جاگنا زیادہ اجروثواب کا باعث ہے۔ نہ تو