ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون2009 |
اكستان |
|
سے الگ تھلگ رہیں گے اور با لخصوص سیاسی سر گرمیوں سے مکمل اجتناب کریں گے۔'' یہ عبارت تقریبًا تمام مدارس کے داخلہ فارم میں موجود ہوتی ہے۔ اِس لیے مدارس میں زیر ِ تعلیم طلباء کے کسی بھی منفی سر گرمی کے لیے استعمال ہونے کے اِمکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں لیکن اگر وہ مدرسہ چھوڑ کر چلے جائیں تو وہ کسی کے کنٹرول میں نہیں ہوتے اِس لیے مدارس کے طلباء کو مدارس کی محفوظ چار دیواریوں کے اَندر ہراساں کرنے کا سلسلہ فی الفور بند ہونا چاہیے تاکہ وہ کسی قسم کے انتہائی اقدامات اور بغاوت پر آمادہ نہ ہو پائیں ۔ یہاں ایک اور بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ مدارس کی حیثیت سے تو کبھی بھی دہشت گردی کی حمایت نہیں کی گئی لیکن اگر خدا نخواستہ کوئی طالب علم اِنفرادی طور پر کسی منفی حرکت کا مرتکب پایا بھی جائے تو اِس کی وجہ سے مدارس کے پورے سسٹم کو مورتِ الزام نہیں ٹہرایا جا سکتا جیسے حکومت نے خود اجمل قصاب کے معاملے میں ''نان سٹیٹ ایکٹرز ''کا تصور پیش کیا تھااسی طرح اگر کوئی مدارس سے متعلقہ شخص ایسے کسی عمل میں میںملوث پایا گیا تو وہ بھی مدارس کے حق میں ''نان مدارس ایکٹرز'' ہیں اِن کے اِنفرادی افعال پر مدارس پر یلغار کرنے سے گریز کیا جائے۔ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کی راہ میں مدارس رُکاوٹ نہیں بنیں گے تاہم ثبوت اور شواہد کا مطالبہ ہمارا آئینی اور قانونی حق ہے اور کسی کو اِس کی اجازت بھی نہیں دے سکتے کہ وہ وجہ بتائے بغیر مدارس کے طلباء کی ماورائے قانون اغوا کاری کا اِرتکاب کرے۔ اتحاد ِ تنظیما ت مدارس ِدینیہ کے اجلاس کے بعد حکومت کو یہ بھی پیش کش کی گئی ہے کہ مدارس اور مذہبی طبقات کی نمائندہ قیادت موجودہ دہشت گردی کے خاتمے امن و اَمان کی بحالی اور ناراض لوگوں سے مفاہمت کے لیے ہر ممکنہ کردار اَدا کرنے پر آمادہ ہے لیکن یہاں تو اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے کہ دہشت گردی کی آگ کو بجھانے کے لیے اَرباب ِ مدارس کا تعاون حاصل کرنے کی بجائے مدارس کو تنگ کرکے بعض جذباتی نوجوانوں کو دہشت گردی کا راستہ دِکھانے اور دہشت گردی کی اِس آگ پر تیل چھرکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔