ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2006 |
اكستان |
فوٹو دے کر سن وار حالات لکھ کر یہ ثابت کیا ہے کہ پہلا لشکر جو قسطنطنیہ پر جہاد کے لیے گیا اُس کا امیر یزید نہیں تھا۔ (٢) اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اُس لشکر کا سردار یزید ہی تھا تو شریعت کی نظر میں ایسی عام بشارتوں کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ مسلمان آخر وقت تک صحیح رہا ہو مثلاً مَنْ قَالَ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّةَ میں بھی یہ شرط ہے ورنہ یہ توجیہ کی جاتی ہے کہ بالآخر جنت میں چلاجائے گا چاہے درمیان میں معاذ اللہ دوزخ میں جانا پڑے۔ اسی طرح یہاں بھی معنی لیے جائیں گے کہ بالآخر مغفرت ہوجائے گی ،تمام اہل سنت کا اِس مسئلہ میں اتفاق و اجماع ہے کہ ہر مسلمان چاہے وہ صغیرہ گناہ کرتا رہا ہو یا کبیرہ مَغْفُوْرلَّھُمْ میں داخل ہے اور اس حدیث میں بھی مَغْفُوْرلَّھُمْ آیا ہے لَایَدْخُلُ النَّارَ نہیں، اس سے سلب ایمان کی نفی ثابت ہوتی ہے۔ سوال نمبر ٢ : بہت سے صحابہ کرام نے امیر یزید مرحوم سے بیعت خلافت کی اور اُس پر قائم رہے۔ منجملہ اِن کے حضرت عبد اللہ ابن عمر، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت عبد اللہ بن جعفر، حضرت نعمان بن بشیر، حضرت جابر بن عبد اللہ وغیرہم۔ اگر امیر یزید کافر یا فاسق و فاجر اور شرابی، زانی اور دشمن دین ہوتے تو یہ حضراتِ صحابہ اِن کے ہاتھ پر ہرگز بیعت نہ فرماتے۔ اگر یہ بات نہ مانی جائے تو ان صحابہ پر کفر و فسق نوازی اور فجور و بدنیتی کی سرپرستی اور تعاون کا بڑا بھاری الزام آئے گا اور یہ سراسر قرآن کریم کے بیان کردہ اِس وصف کے خلاف ہے جو جماعت صحابہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ اُولٰئِکَ ھُمُ الرَّاشِدُوْنَ ۔ (سورة حجرات پ٢٦) جواب : مزید وضاحت کے لیے یہ حدیثیں مثال کے طور پر پیش کرتا ہوں۔ حضرت معاذ روایت فرماتے ہیں : مَا مِنْ اَحَدٍ یَّشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمْدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ صِدْقًا مِّنْ قَلْبِہ اِلَّا حَرَّمَہُ اللّٰہُ عَلَی النَّارِ۔ (بخاری ص٢٤ ج١) ''جو بھی لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمْد رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی صدق دل سے گواہی دے گا اللہ تعالیٰ اُسے آگ پر حرام فرمادے گا''۔