ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2006 |
اكستان |
|
اور عورتوں میں یہ رنگ نہیں، وہ ساز و سامان پر فریفتہ (عاشق) ہیں۔ ہر وقت چیزوں کے جمع کرنے کی اِن کو حرص رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روپے کو بے درِیغ اُڑاتی ہیں۔ اوّل تو اِس وجہ سے کہ اُس کی اِس بات پر توجہ نہیں کہ روپے سے ہر چیز حاصل ہوجاتی ہے اور دوسرے روپیہ اِن کا کمایا ہوا نہیں جس سے دل دُکھے اس لیے بے درِیغ خرچ کرتی ہیں۔ (خیر الاناث للاناث ملحقہ حقیقت ماہ و جاہ) خیر جو کچھ بھی وجہ ہو عورتوں کو روپیہ کی قدر نہیں، اِن کو زیادہ شوق چیزوں کا ہے حتّٰی کہ فضولیات (غیرضروری سامانوں) تک اِن کی نظریں پہنچتی ہیں۔ بس اِن کو تو یہ خبر ہونا چاہیے کہ فلاں چیز بِک رہی ہے فوراً اُس کے خریدنے کا اہتمام ہوتا ہے گویا پہلے ہی سے اُس چیز کی منتظر تھیں۔ ان کو چیزوں سے ایسی محبت ہے کہ ہر چیز کے لیے بیس ضرورتیں گھڑلیں گی۔ برتن بکتا ہوا آجائے خواہ اُس کی کچھ بھی ضرورت نہ ہو بس خریدلیں گی۔ چنانچہ گنجائش والے گھروں میں اتنا سامان موجود ہوتا ہے کہ کبھی استعمال کی بھی نوبت نہیں آتی مگر عورتوں کو سامان خریدنے سے کسی وقت بھی انکار نہیں۔ حالت یہ ہے کہ بڑے بڑے فرش اور صندوقیں فضول رکھے ہوئے ہیں مگر اِن کی خریداری بند نہیں ہوتی۔ خصوصاً نازک اور تکلف کا سامان خریدنے کا آج کل بڑا شوق ہے جو سوائے زینت اور آرائش کے کسی کام کا نہیں۔ (اور وہ سامان کمزور اتنا ہے کہ) ذراسی ٹھیس لگ جائے تو کسی کام کا بھی نہیں مگر عورتوں کو دِن رات ہر وقت یہی دھن ہے۔ خلاصہ یہ کہ اِن کے اندر حُبِّ مال اِس رنگ میں ہے کہ اِن کے پاس کتنی ہی چیزیں ہوں مگر زائد ہی کی طالب رہتی ہیں، اِن کا پیٹ ہی نہیں بھرتا۔ ان کو سامان سے کبھی صبر ہوتا ہی نہیں۔ مرد تو کپڑوں میں پیوند تک لگالیتے ہیں مگر عورتیں ہیں کہ اِن کو نئے کپڑوں بھرے صندوق بھی کافی نہیں ہوتے۔ چاہتی ہیں کہ کپڑوں سے گھر بھرلیں۔ اگر سخت مجبوری (تنگی) ہو تو پیوند بھی لگالیں گی مگر وسعت میں تو لگاتی ہی نہیں مگر بعض مرد بیچارے ملازم تو ہیں معمولی تنخواہ کے مگربیبیوں کو دیکھو تو بیگم بنی ہوئی ہیں۔ مرد اَپنے لیے پیوند لگے کپڑوں کو عیب نہیں سمجھتا مگر عورت غریب کی بھی ہوگی تو اپنے کو ایسا بنائے گی کہ گویا بالکل امیر کی لڑکی یا کسی بڑے آدمی کی بیوی ہے اور یہ سب ساز و سامان اور سجاوٹ شوہر کے لیے نہیں بلکہ دوسرے کو دکھانے کی غرض سے ہوتا ہے حالانکہ یہ محض ناسمجھی کی بات ہے دِکھانے سے ہوتا کیا ہے؟ کیونکہ آپس میں خاندان والوں کو ایک دوسرے کا حال معلوم ہی ہوتا ہے کہ اِس کی اتنی حیثیت ہے اور اِس کی اتنی، پھر دکھانے سے فائدہ۔ یہ مانا کہ عورتوں کے لیے زینت مناسب ہے مگر اِس اعتدال (حد) سے آگے تو نہ ہو۔ (جاری ہے)