ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2006 |
اكستان |
|
حال ہی میں چینی کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں، تمام حکومتی ادارے فیل ہوگئے۔ بالآخر سب سے ڈرائونی چیز ''نیب'' کے حرکت میں آنے کی خبریں اخبارات میں آنے لگیں مگر تین چار دن کے بعد یہ خبر آگئی کہ نیب نے اپنی کارروائیاں روک دیں۔ اِس سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ شوگر مل مالکان اور اِس مہنگائی کے دیگر پردہ نشین ذمہ داروں کا تعلق حزب اختلاف سے نہیں بلکہ حزب اقتدار سے ہے، تب ہی نیب جیسی ڈرائونی شئے بھی دبک کر بیٹھ گئی۔ ضیاء الحق صاحب کے زمانے کی بات ہے کہ منشیات کے خلاف مہم چلائی جارہی تھی، اِدارے کو مخبری ہوئی کہ لاہور کے فائیو سٹار ہوٹل میں ہیروئن کا بہت بڑا سودا ہورہا ہے، چھاپہ مار ٹیم کے سربراہ نے کمرے میں جھانکا تو وہیں سے اُلٹے پائوں واپس ہولیا، اُس کا کہنا تھا کہ میری خوش قسمتی تھی کہ میں پنجاب کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے بیٹے کو پہچانتا تھا جو کہ وہاں بیٹھا ہوا سودا کررہا تھا۔ آج جو صورتحال ہے وہ پہلے سے مختلف نہیں ہے بلکہ بدتر ہی ہے۔ اِس بات کی تائید اِس سے بھی ہوتی ہے کہ وزیر اعظم پاکستان جناب شوکت عزیز نے ٢٣مارچ کو یوم پاکستان کے موقع پر کراچی میں فرمایا کہ ''مہنگائی ضرور بڑھی ہے ڈنڈے کے زور پر نہیں روک سکتے۔ '' اِس بیان کے ذریعے وزیر اعظم اپنی ناکامی اور بے چارگی پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ ڈنڈا چلانے نہ چلانے کا سوال تو وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں ڈنڈا ہاتھ میں ہو۔ وزیر اعظم تو خود کسی کے رحم و کرم پر ہیں۔ اس قسم کے بیانات سے یہاں تو کام چلالیتے ہیں مگر آخرت میں اللہ کے سامنے جب کھڑے ہونگے تو کیا جواب دیںگے۔ بے بس وزیر اعظم صاحب کو ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ وزارت عظمیٰ کے عہدے کو خیرباد کہیں اور تبلیغی جماعت کا رُخ کریں۔ چلے سہ ماہیاں لگائیں۔ اپنی نمازیں بھی درست کرائیں اور شوگرمل مالکان کی طرف اپنی تشکیل کرائیں، شاید کسی کے دل میں آپ کی بات اُتر جائے۔ مگر مثل مشہور ہے'' لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے''۔ اِس بناء پر ہم اپنے اِس مشورے کے بہت بہتر ثمرات کی توقع بھی نہیں کرتے۔ البتہ ہماری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اِس ملک پر رحم فرمائے اور ظالم و جابر حکمرانوں کو ہدایت نصیب ہو، نہیں تو اللہ تعالیٰ اِن کو ناکام و نامراد فرماکر قوم کی گلو خلاصی کرائیں۔