ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2005 |
اكستان |
|
آپ سے یہ درخواست کرتا ہوں اورآپ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں بوسیلہ محمد ۖ نبی رحمت کے، اے محمد ۖ آپ کے وسیلہ سے اپنی اس حاجت میں اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ وہ پوری ہو۔ اس سے توسل صراحتاً ثابت ہوتا ہے اورچونکہ آپ کا اس کے لیے دعا فرمانا کہیں منقول نہیں ۔ اس سے ثابت ہوا کہ جس طرح توسل کی دعا جائز ہے اسی طرح توسل دعا میں کسی کی ذات کا بھی جائز ہے ۔ ( نشرالطیب ) طبرانی نے کبیر میں عثمان بن حُنیف سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص حضرت عثمان بن عفان کے پاس کسی کام کو جایا کرتا اوروہ اس کی طرف التفات نہ فرماتے، اس نے عثمان بن حنیف سے کہا انہوںنے نے فرمایا تو وضو کرکے مسجد میں جا اوروہی دعا جو اُوپر والی حدیث میں ذکر ہوچکی ہے سکھلا کر کہا کہ یہ پڑھ۔ چنانچہ اُس نے یہی پڑھا اور حضرت عثمان کے پاس گیا تو انہوںنے بڑی تعظیم وتکریم کی اورکام پورا کردیا۔ اس سے توسل ذات سے بعد الوفات ہوا (نشرالطیب)۔ حضرت اُمیہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ۖ فتح کی دعا کیا کرتے تھے بتوسل فقراء مہاجرین کے (مشکٰوة)۔حضرت ابو درداء سے روایت ہے کہ آپ ۖنے فرمایا مجھ کو (قیامت کے روز )غرباء میں ڈھونڈنا کہ تم کورزق اوردشمنوں پر غلبہ غرباء ہی کے طفیل سے میسر ہوتا ہے ۔(مشکٰوة) ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ مقبولانِ الٰہی کی ذوات سے توسل جائز ہے اورواضح رہے کہ توسل بذاتِ الاولیاء بھی جائز ہے ۔ابوبکر بن خطیب علی بن میمون سے روایت کرتے ہیںکہ میںنے امام شافعی کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں امام اعظم ابو حنیفہ کے وسیلہ سے برکت حاصل کرتا ہوں ، ہر روز ان کی قبر پر زیارت کے لیے حاضر ہوتا ہوں اوراس کے قریب اللہ تعالیٰ سے جاجت روائی کی دعا کرتا ہوں، اس کے بعد جلد میری مراد پوری ہوجاتی ہے (تاریخ طیب ص١٢٣ جلد١ )۔علامہ شامی حنفی نے بھی امام شافعی کا یہ قول (ردا لمحتار ص٣٩ جلد١ ) میں ذکر کیا ہے۔ محترم قارئین : اس مختصر سی تحریر سے یہ با ت واضح ہوجاتی ہے کہ توسل بذواتِ الانبیاء والاولیاء صرف جائز نہیں بلکہ مستحسن وافضل ہے۔ ان بدنصیب لوگوں نے خوامخواہ شور مچایا ہوا ہے اورلوگوں کو گمراہ کررہے ہیں کہ توسل بذوات الصالحة شرک ہے ۔ اللہ تعالیٰ عقل سلیم اورقلب منیب کی دولت سے مالا مال فرمائے اور قرآن وسنت اورسلف صالحین کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق نصیب فرمائے اورانکارِ ولایت سے بچائے۔( آمین)