ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2005 |
اكستان |
|
(٤) حضرت و ضین بن عطاء فرماتے ہیں کہ آنحضرت ۖ جب لوگوں میں موت سے غفلت کا احساس فرماتے تو آپ ۖ حجرہ مبارکہ کے دروازہ پر کھڑے ہوکر تین مرتبہ پکار کر درج ذیل کلمات ارشاد فرماتے تھے : یَااَیُّھاَ النَّاسُ ! یَا اَھْلَ الْاِسْلَامِ ! اَتَتْکُمُ الْمَوْتُ رَاتِبَةً لَازِمَةً جَآئَ الْمَوْتُ بِمَا جَآئَ بِہ،جَآئَ بِالرَّوْحِ وَالرَّاحَةِ وَالْکَثْرَةِ الْمُبَارَکَةِ لِاَوْلِیَائِ الرَّحْمٰنِ مِنْ أَھْلِ دَارِ الْخُلُودِ الَّذِیْنَ کَانَ سَعْیُھُمُ وَرَغْبَتُھُمْ لَھَا اَ لَا ! اِنَّ لِکُلِّ سَاعٍ غَایَةً وَ غَایَةُ کُلِّ سَاعٍ الْمَوْتُ سَابِق وَمَسْبُوْق ۔ ( رواہ البیہقی ، شرح الصدور ٤٤) اے لوگو ! اے اہلِ اسلام ! تمہارے پاس ضرور بالضرور مقررہ وقت میں موت آنے والی ہے موت اپنے ساتھ اُن چیزوں کو لائے گی جن کو وہ لاتی ہے وہ رحمن کے مقرب بندوں کے لیے جو جنتی ہیں اورجنھوں نے اِس کے لیے کوشش اوراِس کی رغبت کی ہے۔ عافیت ، راحت اوربہت سی مبارک نعمتیں لے کر آئے گی ۔ خبر دار ہو جائو ! ہر محنت کرنے والے کی ایک انتہا ہے اوروہ انتہا موت ہے ،پہلے آئے یا بعد میں ۔ اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ مومن کے لیے موت کو یاد کرنا کوئی خلاف ِطبع بات نہیں ہے کیونکہ اُسے یقین ہے کہ اُس کے اعمال ِصالحہ کی بدولت اُسے آخرت میں بہترین دائمی نعمتوں سے سرفراز کیا جائے گا ۔ موت سے تو وہ پہلو تہی کرے جسے آخرت میں اپنی تہی دامنی کا یقین ہو۔قرآن کریم میں کئی جگہ ذکرکیا گیا ہے کہ اہلِ کتاب اپنے کو اللہ کا مقرب اورجنت کا اولین مستحق قراردیتے تھے۔ قرآن کریم نے اُن کے دعوٰی کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تمہارا دعوٰی سچا ہے تو تمہیں جلد سے جلد موت کی تمنّا کرنی چاہیے تاکہ تم اپنے اصل ٹھکانے پر پہنچ کر نعمتوں سے فائدہ اُٹھائو ۔ لیکن اہل کتاب نے نہ کبھی تمنّا کی ، نہ کریں گے اور ہمیشہ موت سے بچنے کی کوشش کرتے رہیںگے ،جو اس بات کی دلیل ہے کہ انھیں آخرت میں اپنی محرومی کا پورا یقین ہے ۔سچے مومن کی شان اِن کے بالکل برخلا ف ہے ۔اس کے لیے تو موت کا ذکر وصلِ محبوب کی لذت عطا کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ۖ نے ایک مرتبہ صحابہ سے ارشاد فرمایا کہ ''کیا میں تمہیں یہ نہ بتلائوں کہ قیامت میں اللہ تعالیٰ ایمان والوں سے سب سے پہلے کیا بات کرے گا اور تم