ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2005 |
اكستان |
|
ان میں جو سب سے زیادہ موت کو یاد کرنے والا ہو اور موت کے بعد کے لیے جو سب سے عمدہ تیاری کرنے والا ہو، ایسے ہی لوگ سب سے زیادہ عقل مند ہیں۔ (٣) حضر ت شداد بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اَلْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ اَتْبَعَ نَفَسَہ ھَوَاہُ وَتمَنّٰی عَلَی اللّٰہِ ۔ ( رواہ الترمذی ٢/٧٢) عقل مند آدمی وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے اورمرنے کے بعد کے لیے عمل کرے جب کہ عاجز اوردرماندہ آدمی وہ اپنے آپ کو اپنی خواہش کے تابع بنالے اورپھر اللہ تعالیٰ سے اُمیدیں باندھے۔ آج کل عقل مند اُسے سمجھا جاتا ہے جو دنیا کمانے اور کاروبار کرنے میں سبقت لے جائے خواہ اُس کے پاس آخرت کے لیے کوئی بھی عمل نہ ہو۔ اورجوشخص اپنی زندگی آخرت کی تیاری میں لگائے ، مال کے حصول میں حلال وحرام کی تمیز رکھے اور ہر مرحلہ پر شریعت کو ملحوظ رکھے تو لوگ اُسے بے چارہ اور عاجز قراردیتے ہیں۔ ایسے شخص کو طرح طرح کے طعنے سننے پڑتے ہیں لیکن مذکورہ احادیث میں جناب رسول اللہ ۖ نے عقلمندی کا جو معیار بتلایا ہے وہ لوگوں کے نظریہ سے بالکل الگ ہے۔ حضور اکرم ۖ کی نظر میں قابلِ تعریف شخص وہی ہے جو موت کو یاد کرنے والا اور اُس کے لیے تیاری کرنے والا ہو۔ چنانچہ ایک حدیث میں وارد ہے کہ آنحضرت ۖ کے سامنے کسی شخص کی تعریف بیان کی گئی تو آپ نے لوگوں سے پوچھا کہ موت کو یاد کرنے میں اُس کا حال کیا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہم نے اُس سے موت کازیادہ ذکر نہیں سنا۔پھر آپ ۖ نے پوچھا کہ وہ اپنی خواہشات کو چھوڑتا ہے یا نہیں؟ اِس پر لوگوں نے عرض کیا کہ وہ دنیا سے حسب ِخواہشات فائدہ اُٹھاتا ہے ۔ یہ سن کر جناب رسول اللہ ۖنے فرمایا کہ وہ آدمی اِس تعریف کا مستحق نہیں ہے جو تم اُس کے متعلق کررہے ہو۔(کتاب الزہد لا بن المبارک ص ٩٠) بہر حال دانشمند ، دُور اندیش اور عقلمند وہی شخص ہے جو ہمیشہ دائمی زندگی کوبہتر بنانے کے لیے کوشاں رہے اوراِس چند روزہ زندگی میں پڑ کر ہمیشہ کے عذاب کو مول نہ لے۔