ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2005 |
اكستان |
علماء کرام کو حق تعالیٰ جزاء خیردے کہ انہوں نے یہ بھی کوشش کی کہ یہ علامت یکجا کردی جائیں اور اِن میں کیا ترتیب ہوگی وہ بھی ذکرکر دی جائے۔اس سلسلہ میں سب سے مفید رسالہ وہ ہے جو حضرت شاہ رفیع الدین صاحب دہلوی رحمة اللہ علیہ نے تحریر فرمایا ہے اِس میں بہت سی احادیث سے استفادہ کرکے ایک مضمون کی شکل دے دی ہے، اسی سے اقتباس کرکے یہ مضمون لکھ رہا ہوں۔ قرب ِقیامت کی علامات میں فسق وفجور بڑی علامت ہے اِس کی تھوڑی سی تشریح عرض کرتا ہوں۔ کفر اورفسق دولفظ ہیں بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کفر کا تعلق عقیدہ سے ہے اور فسق کا تعلق فقط اعمال سے ہے۔ کوئی آدمی خلافِ شرع کام کرتا ہو تو اُسے فاسق کہا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ فسق کا تعلق عقیدہ اورعمل دونوں سے ہوتا ہے۔ عقیدہ کا فسق یہ ہے کہ انسان صحابہ کرام کے بتلائے ہوئے عقائد سے ہٹ جائے۔ جب وہ ان عقائد سے ہٹے گا تو فسق فی العقیدہ میں یعنی بدعت اعتقادی میں مبتلا ہوجائے گا اورکبھی کبھی یہ فسق فی العقیدہ کفرتک بھی پہنچادیتا ہے۔ صحابہ کرام کے بتلائے ہوئے عقائد وہی ہیں جو جناب رسول اللہ ۖ نے تعلیم فرمائے ہیں اوران پر ساری اُمت قائم چلی آرہی ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ صحابہ کرام معیارِ حق ہیں ۔ خروج ، شیعیت ،جہمیت ،اعتزال اورفرقہائے جبریہ ، قدریہ ، مُرجیہ، کرامیہ سب اِسی اصول سے ہٹنے سے پیدا ہوئے ،اِن فرقوں میں بہت سے فرقے فسق تک گمراہی میں مبتلا ہوئے اوربہت سے حد ِکفر تک آگے چلے گئے جو طبقہ صحابہ سے حدِ فسق تک ہٹے وہ بدعتی بھی کہلاتے ہیں۔ غرض جس طرح اعمال میںفسق ہوتا ہے اِسی طرح عقائد میں بھی ہوتا ہے۔ اِن دونوں کا فروغ علامات قیامت میں ہے علامات قیامت میں جو بداعمالیاں صراحةً احادیث میں شمار کرائی گئی ہیں ،یہ ہیں : ظلم کا اس قدر بڑھ جانا جس سے پناہ لینی مشکل ہو ۔خیانت کا عام ہونا۔ جوا ،شراب ناچ اورگانے کی کثرت ۔مردوں کا ناجائز حد تک عورتوں کا مطیع ہونا۔ اولاد کی نافرمانی۔ نااہلوں کے ذمہ وہ کام لگانے جن کے وہ اہل نہ ہوں ۔ اپنے اسلاف پر طعن۔ مساجد کی بے حرمتی۔ جھوٹ کو ایک فن کا درجہ دینا۔ گالی گلوچ کی کثرت ۔ دلوں میں شرم وحیا ،امانت ودیانت کی کمی ۔ وغیرہ