ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2004 |
اكستان |
|
سفیرِ ختم ِنبوت حضرت مولانا منظوراحمد چنیوٹی ( مولانا مشتاق احمد صاحب ،اُستاد جامعہ عربیہ چنیوٹ ) نام ونسب : مولانا موصوف چنیوٹ میں راجپوت خاندان کے ایک فردحاجی احمد بخش ولد قادربخش کے ہاں ٣١دسمبر ١٩٣١ء کوپیدا ہوئے ۔آپ کی پیدائش سے پہلے آپ کے والدین نے خواب میں دیکھا کہ اُن کے سامنے سے روشنی پھوٹ رہی ہے جس سے گردوپیش کا علاقہ منور ہورہا ہے ۔آپ کے والد محترم نے قریبی مسجد کے امام صاحب کے سامنے خواب بیان کیا تو انہوںنے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ایسا بیٹا عطا فرمائیں گے جودین ِاسلام کی خدمت کرے گا اور بکثرت لوگ اس سے استفادہ کریں گے۔ امام مسجد کی یہ تعبیر جس طرح پوری ہوئی محتاج بیان نہیں۔ مولانا چنیوٹی کے آبائو اجداد میں سے رائے گل محمد نے سب سے پہلے ساتویں صدی ہجری میں اسلام قبول کیا۔ تعلیم و تربیت : چار سال کی عمرمیں آپ کو قریبی مسجد میں حافظ گلزار احمد مرحوم کے پاس ناظرہ قرآن مجید پڑھنے کے لیے داخل کرایا گیا ۔ناظرہ قرآن پڑھنے کے بعد آپ نے اسلامیہ ہائی سکول چنیوٹ میں چھٹی جماعت تک تعلیم حاصل کی ۔ نامساعد گھریلو حالات وجہ سے آپ کو سکول سے ہٹا لیا گیا ۔اس کے بعد کچھ مدت تک والد صاحب کے ساتھ کام میں اُن کاہاتھ بٹاتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے چونکہ آگے چل کر آپ سے دین ِاسلام کا کام لینا تھا اس لیے چنیوٹ کے معروف عالم دین (احقر کے رشتہ کے داداجان ) حضرت مولانا دوست محمد ساقی فاضل دارالعلوم دیوبند کی توجہ مولانا چنیوٹی کی طرف مبذول کرادی۔ وہ روزانہ آکر آپ کوبھی ترغیب دیتے رہتے اور آپ کے والد صاحب محترم حاجی اللہ بخش صاحب کی توجہ بھی اس طرح مبذول کراتے رہتے نتیجتاً آپ ١٩٤٠ء میں مدرسہ آفتاب العلوم محلہ گڑھا چنیوٹ میں داخل ہو گئے ۔وہاں آپ نے مولانا حبیب اللہ سیالکوٹی ، مولانا محمداسلم حیات گجراتی،مولانا غلام محمد گوجرانوالہ اور مولانا دوست محمد ساقی جیسے فضلائے دیوبند سے کسب ِفیض کیا ۔قیام پاکستان کے وقت ناموافق حالات کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا اور اپنے ماموں محمد اکرم صاحب کے ساتھ پنسار کی دکان پر بیٹھنے لگے ۔پھر مولانا ساقی کے ہمت دلانے پر دوبارہ تعلیم شروع کی اور اُن کے