ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2004 |
اكستان |
|
تعلیمی خدمات : ١٩٥٢ء میں آپ تعلیم سے فارغ ہوئے تو مدرسہ دارالہدٰی چوکیرہ میں تدریسی فرائض سرانجام دینے لگے سنن ابی دائود سمیت اعلیٰ درجات کی کتابیں پڑھاتے رہے چوکیرہ ہی میں مولانا غلام محمد صاحب آف عنایت پوربھٹیاں (چنیوٹ) نے آپ سے تعلیم حاصل کی اور اپنے علاقے میں میں قادیانیوں کو لوہے کے چنے چبوائے ۔ پچاس سے زیادہ قادیانی مولانا غلام محمد کے ہاتھ تائب ہو چکے ہیں۔ مناظر اسلام حضرت مولانا سیّد احمد شاہ چوکیروی سے آپ کو خصوصی تعلق تھا ۔وہ بھی آپ پر بہت شفقت فرماتے تھے۔ حضرت شاہ صاحب کے مشورہ سے آپ چوکیرہ چھوڑ کرجامعہ عربیہ چنیوٹ میں بطور صدر مدرس تشریف لائے ۔ جامعہ عربیہ ١٩٥٤ء میں اُستاد القرٰی قاری مشتاق احمد صاحب قدس سرہ نے چنیوٹ کی شیخ برادری کے تعاون سے قائم کیا تھا، انہیں تن ِتنہا مدرسہ کا حکم چلانے میں دقت پیش آرہی تھی۔ مولاناچنیوٹی نے قاری صاحب کے اعتماد اور مشورہ سے مدرسہ کا تعلیمی نظام سنبھالا اور شب و روز سخت محنت کرکے اُسے اس بلندی پر لے گئے کہ عوامی و حکومتی سطح پر معتبر بنادیا اور پورے ملک سے طلبہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے لگے تقریباً تیس پینتیس برس تک یہ معمول رہا کہ شہر میں گھر ہونے کے باوجود پورا ہفتہ مدرسہ میں رہتے تھے اورجمعرات کی شام کو تشریف لے جاتے تھے اور جمعہ کی شام کو پھر واپس آجاتے تھے اور جانچ پڑتال کرتے کہ جمعرات کوچھٹی لے کر گھر جانے والے طلبہ میں سے کون واپس آیا ہے اور کون نہیں آیا ،فجر کی نماز کس نے پڑھی اور کس نے سستی کی ،سستی کرنے والوں کو خود سزا دیتے تھے۔ بہت عرصہ معمول رہا کہ عشاء کے بعد صرف پڑھنے والے طلبہ کو بلا لیتے اور اُن سے صیغے نکلوا یا کرتے تھے ۔اگر دو تین دن کے لیے تبلیغی سفردرپیش ہوتا تو جس وقت واپس آتے ،خود طلبہ کو بلاتے اور سبق پڑھاتے تھے ۔اُن سے بارہا سنا کہ میں سیالکوٹ ،گوجرانوالہ اور راولپنڈی جیسے دور دراز شہروں میں تقریریں کرنے جاتا تھا اور تقریر کے فوراً بعد واپس چل پڑتااورصبح آکر اسباق پڑھاتا تھا ۔جامعہ عربیہ کے ایک اُستاذمولانا نذر محمد صاحب حیران ہوکر کہا کرتے کہ'' معلوم نہیں تو انسان ہے یا جن ہے''۔ آپ کو صرف ونحو اور علم میراث میں خصوصی مہارت حاصل تھی۔ آپ سے کئی بار سنا کہ لوگ مجھے ردِ قادیانیت کا ماہر سمجھتے ہیں حالانکہ اس سے زیادہ مجھے میراث میں دسترس حاصل ہے ۔جامعہ عربیہ میں باضابطہ مفتی متعین نہ تھا ۔علاقہ کے لوگ مولانا مرحوم سے مسائل پوچھنے کے لیے رجوع کرتے اور آپ زبانی اور تحریری طورپر لوگوں کی رہنمائی کیا کرتے تھے ۔اس طرح آپ نے سینکڑوں فتاوٰی تحریری طور پر جاری کیے۔