ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2004 |
اكستان |
|
تو آپ نے فرمایا کل ہم ادھر چل رہے ہیں اور تلک غنیمة المسلمین غداً انشاء اللّٰہ ۔ یہ سب کے سب جتنی بھی چیزیں وہ لائے ہیں یہ سب مسلمانوں کا مالِ غنیمت ہوگا انشاء اللہ۔ غرض یہ کہ وہاں کامیاب ہوئے فتح یاب ہوئے پھر واپس تشریف لائے، وہاں پر پھر ایسے بھی ہوا ہے کہ کفارکے لشکر جب تتّر بتّر ہوئے تو کچھ کدھر چلے گئے کچھ کدھر چلے گئے اور جا کر جمع ہونے شروع ہوئے متفرق جگہوں پر ۔ اُن کے پیچھے جناب رسول اللہ ۖ نے چھوٹے چھوٹے لشکر بھیجے کہ اُن کی سرکوبی کریں جا کر اُن میں۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بھی ایک جانب گئے تھے ان کا اسم گرامی بھی آتاہے ، کسی اور طرف اورحضرات کو بھیجا ہے اُن کے نام بھی آتے ہیں۔وہ(کفار کی) گویا چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں تھیں جو منظم ہونا چاہتی تھیں اور جمع ہو رہے تھے تو اُن کے پیچھے پیچھے آپ نے یہ بھیج دیے لڑائیاں ہوئی ہیں نوبت آئی ہے لڑائی کی شہید ہوئے ہیں اُن میں۔ ہاں تو لڑائی کے ابتداء میں جب مسلمانوں کو پسپائی ہو ئی اور مسلمان تِتّر بِتّر ہو گئے تب رسول اللہ ۖ نے آوازدی انصار کہاں ہیں مہاجرین کہاں ہیں بس آوازدی ایک، تو سب جمع ہوگئے ایک دم ،پھر مقابلہ ہوا ۔ بالاآخر کفار کو زبردست شکست ہوئی : اور وہ کفار بھاگے بھاگنا پڑا جب اپنی جان پر سچ مچ پڑجاتی ہے توپھر سب کچھ بھول جاتا ہے بیوی بھی بھول جائے گی بچے بھی بھول جائیں گے اپنی جان ایسی عجیب چیز ہے تو اُس وقت سب چیزیں ذہن سے نکل جاتی ہیں تو انھیں بھاگنا پڑا اور چھوڑ گئے بچے بھی بیویاں بھی ،عورتیں اوربہنیں بھی ہوں گی اُن میں، مائیں بھی ہوں گی اُن میں، اور مال بھی چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ رسول اللہ ۖ کی دانائی : اب رسول اللہ ۖ کو یہ انداز تھا کہ اتنا بڑا صدمہ کوئی قوم برداشت نہیں کرسکتی۔یہ ضرورآئیں گے صلح کریں معافی مانگیں یا اسلام لے آئیں جو بھی صورت بنے ،آنا پڑے گا انھیں ۔انتظار فرماتے رہے بیس دن سے کچھ کم دس سے زیادہ تقریباً سترہ اٹھارہ دن ۔اس کے بعد پھر آپ نے ایک مقام پر اموال تقسیم فرمادئیے۔ نبی علیہ السلام کی اپنے حصہ میں سے بخشش : اور رسول کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم کے حصہ میں جو آیا تھا اُس میں سے بہت بہت آپ نے دیاہے ۔ بہت بہت دیاہے ۔ اقرع ابن حابس کو عینة ابن حسن فزاری کو اور ابو سفیان ابن حرب کو اور دوسرے لوگوں کو جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے فتح مکہ کے موقع پر یا ایسے تھے کہ جو پکی طرح پہلے سے مسلمان ہوکر اسلام کے لیے قربانیاں نہیں دے چکے تھے جہاد نہیں کر چکے تھے۔